کراچی میں ایک ماہ کے اندر دہشت گردی کے تین واقعات رپورٹ ہونے کے بعد دہشت گردی میں حالیہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے شہر میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اس سے پہلے کہ حالات مزید خراب ہوں۔
تازہ ترین حملہ پیر کے روز اس وقت ہوا جب کراچی کی مصروف بولٹن مارکیٹ کے قریب ایک موٹر سائیکل سے منسلک آئی ای ڈی پھٹ گیا، جس میں ایک خاتون ہلاک اور ایک درجن افراد زخمی ہوئے۔ مشہور بازار سے گزرنے والی پولیس وین کو بظاہر دھماکے کا نشانہ بنایا گیا جس سے بازار میں کہرام مچ گیا۔
چند روز قبل صدر کے علاقے میں دھماکہ ہوا تھا جس میں ایک راہگیر جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ اور اس سے قبل کراچی یونیورسٹی میں ایک خاتون خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا جس میں تین چینی اساتذہ ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعے نے غم و غصے کو جنم دیا اور چینی حکومت نے مجرموں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔
سیاسی اور معاشی بحران کے درمیان، ہم نے بتدریج دہشت گردی کے کئی واقعات دیکھے ہیں،وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ شرپسندوں کو شہر کا امن خراب نہیں کرنے دیں گے۔ اس کے لیے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے حفاظتی انتظامات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
ایک ماہ کے دوران دہشت گردی کے تین واقعات حکام کے جاگنے کے لئے کافی ہیں، جنہیں ہائی الرٹ رہنا چاہئے، مصروف، پرہجوم علاقوں میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں نے امن و امان کی صورت حال کو کھلا دھچکا پہنچا یاہے جس کا دہشت گردوں نے فائدہ اٹھایا۔
کراچی میں قانون نافذ کرنے والے ادارے 2017 سے دہشت گردوں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کافی کامیابی حاصل کیں اور سیکورٹی کی صورتحال میں بہتری کو سراہا گیا۔ تاہم حالیہ مہینوں میں سستی نے ایسے شرپسندوں کو ایک بار پھر موقع فراہم کیا ہے۔
ملک میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافے کے پیش نظر حکام کو پوری طرح چوکنا رہنا چاہیے تھا۔ اگر حکام کی طرف سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو اس کی تحقیقات ہونی چاہیے اور ذمہ داروں کو جوابدہ ہونا چاہیے۔ دہشت گردوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بہتری اور ملک کا امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی جس کے لیے ہم نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔