کملا ٹرمپ مباحثہ اور پاکستان۔۔

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

امریکا کی جمہوریت دنیا کی مقبول ترین جمہورتیوں میں سے ایک ہے اور امریکا ناصرف اپنے جمہوری طرز حکومت پر ناز کرتا ہے بلکہ اپنی عسکری قوت اور دنیا کی معاشیات کو کنٹرول کرنے کی قوت بھی اپنے پاس رکھتا ہے۔

امریکا کے بہت سے فیصلے دنیاکی سیاست میں طلاطم پیدا کرنے کا سبب بھی بنتے ہیں جس میں کسی نہ کسی شئے کو جواز بناکر افغانستان، عراق اور لیبیا جیسے ممالک پر حملہ آور ہوجانا اور جنگ و جدل میں لاکھوں افراد کا لقمہ اجل بن جانا امریکا کیلئے معمول کی بات سمجھی جاتی ہے اور غالباً اسی لئے شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

خدا جب حُسن دیتا ہے، نزاکت آہی جاتی ہے۔۔۔

دنیا کی مضبوط ترین عسکری قوت کو امریکا نے ہمیشہ اپنی خارجہ پالیسی کو دوام بخشنے کیلئے استعمال کیا ہے اور اسی برتری کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے حواری ممالک کے ساتھ ملکراپنی موجودگی، تسلط اوراثرو رسوخ کو قائم و دائم رکھے ہوئے ہے۔

امریکا میں صدارتی الیکشن سے پہلے دونوں امیدواروں کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہونیوالا مباحثہ ایک کلیدی اہمیت رکھتا ہے چونکہ امریکا کا صدر دنیا کے کئی معاملات میں اثرانداز ہونے کی طاقت رکھتا ہے اور ماضی میں اس کی لاتعداد مثالیں موجود ہیں جب امریکی صدور اقوام عالم کے معاملات میں مداخلت کرتے رہے ہیں بلکہ اپنے مخالفین کو اگر کچھ اور نہیں تو معیشت کی تباہی کی طرف لے جانے سے بھی گریز نہیں کرتے کیونکہ دنیا کے بڑے مالیاتی اداروں پر خاصی گرفت رکھتا ہے اور آئی ایم ایف جیسے ادارے بھی امریکا کے اشارے پر ہی انحصار کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو امریکا کی ضرورت درپیش آتی ہے۔

آج کے اس صدارتی مباحثے پر نظر ڈالیں کہ کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان کیا گفتگو ہوئی جس کو دنیا کے اربوں افراد نے ٹی وی پر دیکھا تو اس مباحثے کا 4 نومبر کو ہونیوالی امریکی صدارتی الیکشن پر اثر نمایاں ہونے کا امکان ہے۔مباحثے سے قبل ہونیوالے ایک سروے کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت 48 فیصد اور کملا ہیرس 47 فیصد مقبولیت حاصل کرچکی ہیں۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 27 جون کو موجودہ صدر جوبائیڈن اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مباحثے میں ٹرمپ کی مقبولیت میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا خاص طور پر جانی حملے کے بعد جب ٹرمپ نے مکا لہرایا تو ان کی مقبولیت کو چار چاند لگ گئے تھے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمدردی اور جذبات میں ہونیوالی حمایت زیادہ دیرپا نہیں رہتی۔کملا ہیرس کی نامزدگی کے بعد دیکھنے میں آیا کہ ان کی مقبولیت بتدریج اضافے کی طرف گامزن ہے اور الیکشن میں اب تک کانٹے دار مقابلے کا توازن اب تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔

کملا ہیرس نے طویل عرصہ پراسیکیوٹر جنرل اور اٹارنی جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، بطور ماہر قانون پریکٹس کی وجہ سے کملا ہیرس دلائل کے ساتھ بحث و مباحثے کا بھرپور تجربہ رکھتی ہیں اور اس لئے بحث کے دوران کملا ہیرس نے پراعتماد انداز سے اچھا تاثر چھوڑا۔

صدارتی مباحثے کے دوران اسقاط حمل، امیگریشن، معیشت اور بیروزگاری پر سیر حاصل گفتگو کی گئی، اس بحث کے دوران کملا ہیرس حاوی نظر آئیں خاص طور پر اسقاط حمل اور امیگریشن پالیسی کے حوالے سے دو ٹوک موقف کی وجہ سے انہیں خوب سراہا گیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے نسلی امتیاز کا معاملہ اٹھایا تو کملا ہیرس نے بہت پراعتماد اور مدلل انداز میں جواب دیا کہ امریکا سب کا ہے اور امریکا میں رنگ و نسل کی بنیاد پر تقسیم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

اس بحث کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ مستقبل کے حوالے سے کوئی ٹھوس منصوبہ پیش کرنے میں ناکام رہے اور ان کا کہنا تھا کہ ہم منصوبے بنارہے ہیں جبکہ کملا ہیرس نے بحث کے دوران اپنا معاشی منصوبہ پیش کیا اور مستقبل میں طبی سہولیات و دیگر منصوبوں کے بارے میں کھل کر اپنا موقف بیان کیا۔اس بحث کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ بجائے کوئی ٹھوس پلان سامنے لاتے زیادہ تر اپنا دفاع کرتے دکھائی دیئے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے موجودہ حکومت کی کمزور کارکردگی کا حوالہ دیکر حریف کو دبانے کی کوشش کی تو کملا ہیرس نے دو ٹوک جواب دیا کہ میں جوبائیڈن ہوں نہ ڈونلڈ ٹرمپ، انہوں نے اقتدار میں آکر اپنی پالیسیوں کا اعادہ کیا اور ڈونلڈ ٹرمپ کی عدالت سے سزاء، معاشی جرائم، جنسی جرائم ودیگر اسکینڈلز پر بھی بات کی۔ اس دوران ڈونلڈ ٹرمپ کا اعتماد بری طرح متزلزل ہوتا دیکھا گیا۔

بحث کے آغاز میں ابتدائی چند منٹس کی بات چیت میں ڈونلڈ ٹرمپ کافی پراعتماد تھے تاہم وقت گزرنے کے ساتھ کملا ہیرس کے اعتماد میں اضافہ ہوتا گیا اور ان کے چہرے کے تاثرات وباڈی لینگویج بھی بہتر ہوتی گئی۔

امریکی صدر کا پاکستان جیسے ممالک پر کلیدی اثر ہوتا ہے اور خاص طور پر آنیوالے دنوں میں ہمارے تجارتی معاملات، دہشت گردی کے خلاف اقدامات، سیاسی منظر نامے کو دیکھا جائے تو پاکستان کی کچھ سیاسی قوتیں امریکا کے زیر اثر اور زیادہ مرغوب دکھائی دیتی ہیں اس لئے امریکا کے نئے صدر پاکستان کی صورتحال پر اثر انداز بھی ہوسکتے ہیں۔

امریکی صدر کے انتخاب کا علاقائی سیاست و حالات پر بھی نمایاں اثر ہوگا تاہم امریکا اور بھارت کے تعلقات میں زیادہ تبدیلی کا امکان کم ہی دکھائی دیتا ہے کیونکہ امریکا کی خارجہ پالیسی میں چین کا اثرو رسوخ کم کرنے کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ تبدیلی نظر نہیں آتی۔

پاکستان میں تعلیم اور صحت کے شعبہ جات میں امریکا کی جو مدد حاصل رہی اور خاص طور پر انسانی حقوق، جمہوریت ، جوہری ہتھیار، ایران اور مشرق وسطیٰ کے معاملات کی وجہ سے امریکا بہت زیادہ اثر انداز ہوسکتا ہے۔

آج کے مباحثے کو دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ صدارتی الیکشن میں کملا ہیرس بتدریج سبقت لیتی جائیں گی اور امریکا میں پہلی بار کسی خاتون کے صدر بننے کی راہ ہموار ہوتی نظر آرہی ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان کو پہلے ہی چاہیے تھا مگر اب بھی دیر نہیں ہوئی کہ پاکستان امریکا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش شروع کردے۔

امریکا میں مقیم پاکستانیوں اور وہاں متعین سفیر و سفارتخانے کو متحرک کردیا جائے کیونکہ آنیوالے دنوں میں مخدوش معیشت کو سہارے کی ضرورت ہے اور امریکا جیسا ملک پاکستان کی مدد کو آجائے تو سرمایہ کاری میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہے مگر اے کاش ہمارا دفتر خارجہ اتنا متحرک ہوسکتا کہ تمام علاقائی و بین الاقوامی معاملات کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکا کے آنیوالے صدر کی جماعت و صدر اور ان کی ٹیم سے خوشگوار تعلقات استوار کئے جاسکیں تاکہ نئے صدر کے آنے بعد پاکستان کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔