انصاف اور سمجھوتہ

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان میں غریب کیلئے انصاف کا حصول انتہائی مشکل ہوچکا ہے، کراچی کے پسماندہ علاقے میں مبینہ طور پربااثر سیاسی رہنماؤں کی ایماء پر قتل ہونیوالے ناظم جوکھیو کے کیس نے ایک بار پھر سول سوسائٹی کو احتجاج پر مجبور کردیا ہے۔

اس کیس میں بھی بااثر افراد کی جانب سے قانون کے ساتھ سنگین مذاق دیکھنے میں آیا گوکہ اس کیس میں نامزد بعض ملزمان کو گرفتار بھی کیا گیا لیکن ایک بااثر رکن قومی اسمبلی پولیس اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے سامنے سے دبئی فرار ہوا اور ملک واپس آنے کے بعد اس مفرور شخص کو ہار پہنائے گئے .بعد ازاں پولیس نے ناظم جوکھیو پر تشدد کرنے والے ایم این اے جام عبدالکریم اور ان کے بھائی ایم پی اے جام اویس سمیت دیگر ملزمان کا نام قتل کیس سے خارج کر دیا تھا۔

جام کریم کیس میں نامزد ہونے کے بعد دبئی فرار ہو گئے تھے لیکن جب وہ واپس آئے تو ان کے ناموں کو کیس سے  ہٹانے پر لوگوں میں غم و غصہ پیدا ہوا ہے کیونکہ ناظم جوکھیو کیس سے جڑے افراد کی سیاسی پشت پناہی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی اور اس واقعہ نے بھی ملک میں غریب کیلئے انصاف کو ایک مذاق بناکر پیش کیا ہے۔

یہاں تک کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ملزمان کیخلاف کارروائی کو آگے بڑھانا ٹھیک نہیں سمجھا اورآخر کار تفتیش بند کردی، ابتدائی طور پر مقدمہ درج کیا گیا لیکن چھاپے یا گرفتاری نہیں ہوئی اور ملزمان کو کلین چٹ دے دی گئی۔

ناظم جوکھیو کو گزشتہ سال نومبر میں ملیر کے ایک فارم ہاؤس میں اس وقت قتل کیا گیا تھا جب انہوں نے سیاستدانوں کے غیر ملکی مہمانوں کو خطرے سے دوچار ہوبارا بسٹرڈ کے شکار سے روکا تھا۔

یہ ایک چھوٹا سا مسئلہ تھا جس کی وجہ سے ان کی جان چلی گئی۔انصاف کی فراہمی کے لیے کیس آسان ہو سکتا تھا لیکن بدقسمتی سے پورا صوبائی ریاستی نظام بااثرافراد کا ساتھ دے رہا ہے۔

کیس نے ایک نیا موڑ اُس وقت لیا جب مقتول شہری کی بیوہ نے تمام ملزمان کو یہ کہتے ہوئے معاف کر دیا کہ انہیں انصاف ملنے کی کوئی امید نہیں ہے۔

قانونی برادری اس بات پر منقسم تھی کہ آیا معافی کو قانونی حیثیت حاصل ہے یا نہیں لیکن یہ بات واقعی دل دہلا دینے والی تھی کہ اس خاتون نے خاندان سے تمام امیدیں چھوڑدی ہیں اور بااثر افرادکے خلاف اپنی حفاظت کے لیے خوف زدہ ہیں۔

امیروں اور بااثر افراد کی طرف سے استثنیٰ اور اختیارات کا غلط استعمال سراسر ناانصافی ہے۔ قصور ہمارے معاشرے کا ہے  کیونکہ اپنے  فوجداری نظام انصاف کو ٹھیک کرنے کے بجائے، ریاست نے اشرافیہ کے حق میں کئی راہیں پیدا کررکھی ہیں۔

عدالتیں مظلوموں کو انصاف دینے کی بجائے ملزمان کو ضمانتیں دے کر چھوڑتی یا بری کر دیتی ہیں۔ناظم جوکھیو کے قتل میں ہمارا ملکی نظام بھی قصور وار ہے، اس لئے ریاست کو اس المناک واقعے پر خود فریق بن کر مظلوم خاندان کو انصاف دلانا چاہیے تاکہ ایک مثبت معاشرہ پروان چڑھ سکے۔

Related Posts