عہد صدیقی میں عدالتی نظام

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

دور صدیقی خلافتِ راشدہ دور کا وہ دور ہے جس کی اہمیت اس وجہ سے بہت ہی نمایاں ہے کہ وہ عہد نبوی سے متصل اور قریب ہے، چنانچہ اس دور میں عدالتی نظام درحقیقت عہد رسالت کے عدالیم نظام کی ہی توسیع (extension) تھا۔

عہد نبوی میں یہ نظام جن خطوط پرقائم تھا عہد صدیقی میں بعینہ اسے برقرار رکھا گیا، چنانچہ امیر المومنین سیدنا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس جب کوئی مقدمہ آتا تو آپ خود ہی اس کا فیصلہ فرماتے۔ آپ نے قضاء کو ولایت اور امامت سے الگ نہیں کیا، بلکہ قضاء ولایت سے جڑی رہتی رہی۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں ہوتا تھا، البتہ کبھی کبھار بعض قضایا میں دوسرے حضرات سے بھی مدد لیتے، چنانچہ مدینہ منورہ میں سیدنا عمر کو قضاء کی ذمہ داری سپرد تھی، تاہم یہ ذمےد اری مستقل منصبی مسئولیت کی بنا پر نہ تھی۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان قضاۃ کی اکثریت کو برقرار رکھا جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا تھا۔
عہد صدیقی میں عدالتی نظام کے مصادر
۱- قرآن کریم
۲- سنتِ نبویہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عدالتی فیصلے بھی شامل ہیں۔
۳- اجماع
۴- اجتہاد اور رائے، لیکن اس کی ضرورت تب پڑتی تھی جب کتاب وسنت اور اجماع سے کوئی رہنمائی نہ ملتی۔ (وقائع ندوة النظم الإسلامية)
عہد فاروقی میں عدالتی انتظام
جب اسلام اطراف عالم میں پھنےیس لگا اور اسلامی ریاست کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا تو ساتھ ہی خلیفہ کی مصروفیات بڑھ گئیں، شہروں میں گورنروں کے فرائض میں بھی تنوع آگیا، باہمی جھگڑے اور خصومات بڑھ گئے، ان حالات میں امیر المومنین سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے تدبر اور بصیرت سے مناسب سمجھا کہ اب قضا (Judiciary) کو انتظامیہ (Administration) سے الگ مستقل ادارے (Institution) کی شکل دے دی جائے، تاکہ گورنر انتظامی معاملات کئےظ فارغ ہوں، چنانچہ آپ نے شہروں میں باقاعدہ قاضی مقرر کےi۔ مصر، شام، بصرہ، کوفہ کیلئے مرکز سے قاضیوں کا تقرر فرمایا۔ شریح کو کوفہ کا قاضی مقرر کیا۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ جو مدینہ منورہ میں انصار کے بارہ نقباء میں شامل تھے، کو شام میں قاضی مقرر فرمایا اور کعب بن سور ایک عجیب معاملہ میں بصرہ کے قاضی مقرر ہوئے۔ معاملہ یہ تھا کہ کعب حضرت عمر کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک خاتون آئں اور کہنے لگںت: میں نے اپنے شوہر سے زیادہ افضل کوئی نہیں دیکھا ہے۔ وہ اپنی رات عبادت میں گزارتا ہے اور دن کو روزے رکھتا ہے۔ حضرت عمر نے اس خاتون کو دعا دی اور ان کی خوب حوصلہ افزائی فرمائی۔ خاتون شرماگئیں اور واپس جانے کلئے اٹھںص تو کعب نے کہا: امیرالمؤمنین! اس عورت نے آپ کے سامنے نہایت بلیغ پیرایہ میں شکایت پیش کی ہے۔ سیدنا عمر نے فرمایا کیسی شکایت؟کعب نے کہا اپنے شوہر کی (یعنی وہ رات دن عبادت میں مشغول رہتا ہے اور اس کی طرف توجہ نہیں دیتا) یہ سن کر سیدنا عمرؓ نے عورت کو بلوایا اور کعب سے کہا تم دونوں (میاں بیوی) کا فیصلہ کردو۔کعب نے عرض کیا آپ کی موجودی میں میں فیصلہ کروں؟ فرمایا،جس چیز کو تم نے سمجھ لیا میں نہ سمجھ سکا،اس کا فیصلہ بھی تم ہی کو کرنا چاہئے، چنانچہ کعب نے کلام پاک کی اس آیت : فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ۔۔۔الخ (تم کو جو عورتیں پسند ہوں، ان سے نکاح کرو،دو،تین تین اور چار چار) سے اس بنیاد پر کہ جب قرآن میں چار بیویوں کی اجازت ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہر چارشبانہ یوم (دن رات)میں ایک شبانہ یوم (دن رات) ہر بیوی کا حق ہے، چنانچہ ایک بیوی کا کم سے کم یہی (ایک دن رات) حق ہوگا، اس عورت کے شوہر کو تین دن روزہ رکھنے (تین بیویوں کے حق پر قیاس کرتے ہوئے) اورایک دن بیوی کیلئے (چوتھی بیوی کے درجے میں رکھ کر) افطار کرنے اورتین رات عبادت کرنے اور ایک رات بیوی کے پاس رہنے کا حکم دیا۔
سیدنا عمرؓ یہ استدلال سن کر بہت مسرور ہوئے اورفرمایا کہ یہ (استدلال) میرے لیے پہلے (عورت کی لطیف پیرائے میں پیش کی گئی شکایت تاڑنے) سے بھی زیادہ تعجب انگیز ہے، چنانچہ اسی وقت انہیں بصرہ کا قاضی بناکر بھیج دیا۔ (تاريخ قضاة الاندلس: صـــــ۴۱)
چنانچہ امیر المومنین سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے عدلیہ کے ادارے کو ملتق شکل دی اور انتظامیہ سے اسے الگ کیا۔ ساتھ ہی حضرت عمر وہ پہلی شخصیت ہیں جنھوں نے سب سے پہلے قاضیوں کلئے بیت المال سے باقاعدہ تنخواہیں جاری کیں۔

Related Posts