اسلام آباد: سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیرِ سربراہی مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کیلئے تشکیل دئیے گئے جوڈیشل کمیشن نے اپنی کارروائی مؤخر کردی ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد اور بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل 3 رکنی کمیشن کا اجلاس آج ہوا جس میں اٹارنی جنرل منصور عثمان پیش ہوئے اور سپریم کورٹ کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا۔
کراچی، 9 مئی کو جو ہوا، دشمن بھی نہیں سوچ سکتا تھا۔ وزیر اعظم
حکم نامے کی سماعت کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ کے قواعد میں تحریر ہے، فریقین کی سماعت کے بعد فیصلہ ہوتا ہے، کمیشن کو حکم نامے کی نقل فراہم کریں۔ تھوڑا بہت آئین جانتا ہوں۔
ریمارکس کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کمیشن کے معاملے میں کمیشن کو بھی نوٹس کیا جانا چاہئے تھا۔ آپ کو نوٹس کیا گیا تھا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے زبانی پیش ہونے کا کہا گیا تھا۔ سماعت کے بعد نوٹس جاری ہوا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک جج کے خلاف الزام پر ریفنرس پوری زندگی بھگتنا پڑتا ہے۔ عابد زبیری اور شعیب شاہین نے آج آنے کی زحمت نہیں کی۔ انہیں آ کر بتانا نہیں تھا کہ کل کیا حکم آیا؟ اٹارنی جنرل جج کا حلف پڑھیں۔
حلف پڑھنے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ حلف میں تحریر ہے کہ فرائض آئین و قانون کے مطابق ادا کروں گا۔ انکوائری کمیشن بھی قانون کے تحت تشکیل دیا گیا۔ ہم صرف اللہ کے غلام ہیں، کسی اور کے نہیں۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کے سوال پر کہ ٹوئٹر کیا ہے، بتایا ٹوئٹر ایک سافٹ وئیر ہے۔ ہیکر کا نہیں جانتا۔ شاید میڈیا والوں کو علم ہو۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ حیرت ہے آپ نے کل یہ نکات رد نہیں کیے۔
آڈیو لیکس کمیشن سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ریمارکس دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ہمیشہ گھر کی پرائیویسی ہوتی ہے، آپ نے عدالت کو بتایا کیوں نہیں کہ ان کے اعتراضات والے نکات کی پہلے ہی وضاحت ہوچکی ہے۔
بعد ازاں مبینہ لیکس پر بنائے گئے کمیشن نے اپنی کارروائی مؤخر کردی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ابھی وہ اسٹیج نہیں آئی تھی، نہ ہم وہ کچھ کر رہے تھے۔ کمیشن کو نوٹس نہیں کیا گیا، کام سے کیسے روک دیا؟ مزید کارروائی نہیں کر رہے۔