وفاقی حکومت کا سینیٹ میں یہ انکشاف کہ پاکستان میں گزشتہ چار سالوں میں 42 صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے، جوانتہائی پریشان کن بات ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ جب سے پی ٹی آئی حکومت نے اقتدار سنبھالا صحافت سے وابستہ تمام افراد کے خطرات میں اضافہ ہوا ہے، لیکن صرف چار سالوں میں 42 واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ریاست اس پیشے کو کس طرح مکمل طور پر نظر انداز کرچکی ہے۔
اس تعداد کا موازنہ پاکستان میں 1993 سے اب تک مارے جانے والے صحافیوں کی کل تعداد سے اگر کریں تو گزشتہ تیس سالوں میں کل 77 صحافیوں کی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور مسئلہ کی اصل حد اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ پچھلے چار سالوں میں 42 صحافی مارے گئے جبکہ اس سے پہلے کے 26 سالوں میں صرف 35صحافیوں کو مارا گیا۔
پاکستان میں سچ کی پاداش میں صحافیوں پر ہونے والے ظلم کی داستان کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، جنہیں صرف اس لئے خاموش کرادیا کہ وہ سچ کے علمبردار تھے، قتل و غارت گری کا نشانہ بننے والے صحافیوں میں چھوٹے اداروں میں کام کرنے والے صحافی ہی نہیں بڑے میڈیا ہاؤسز میں کام کرنے والے معروف میڈیا کے لوگ بھی شامل ہیں، جنہیں بے دردی سے قتل کردیا گیا۔
صحافیوں پر ہونے والے حملوں، آن لائن غنڈہ گردی اور پابندیوں نے صحاف کے پیشے کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور اس کے نتیجے میں سامعین کو فراہم کی جانے والی معلومات، تجزیہ، رائے اور خبریں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ حکومتیں اس پیشے کی اہمیت کو صرف اس وقت یاد رکھتی ہیں جب وہ اقتدار سے باہر ہوتی ہیں اورکیونکہ انہیں اپنے بیانیے کو سامنے لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
حکومت کو چاہئے کہ ایسے اقدامات اٹھائے جس سے صحافیوں کو تحفظ حاصل ہوسکے، صحافیوں کے لیے خطرہ بہت سے متعلقہ اداکاروں کے حقوق کو متاثر کرتا ہے، یقیناً اوسط شہری،سیاسی رہنماء بھی صحافیوں کی فراہم کردہ معلومات سے اپ ڈیٹ رہتے ہیں، صحافت کے پیشے سے وابستہ افراد کے لئے حکومت کو اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے۔