جوبائیڈن کی دستبرداری۔۔امریکا اور دنیا

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جوبائیڈن

یوں تو صدر جوبائیڈن اور ٹرمپ کے جون کے صدارتی مباحثے کے بعد منظر نامہ کافی واضح ہوتا نظر آرہا تھا اور ڈیموکریٹس اپنے سربراہ اور امریکا کے صدر کی کارکردگی سے کوئی زیادہ خوش نہ تھے۔ نتیجتا ً ڈیموکریٹ پارٹی کے اندر سے ہی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں کہ صدر جوبائیڈن کو صدارتی الیکشن سے دستبردار ہوجانا چاہئے۔

جوبائیڈن 81برس کے ہوچکے ہیں، ان کا مقابلہ رائٹ ونگ کے وائٹ سپریمسٹ ڈونلڈ ٹرمپ سے تھاجن کی عمر 78سال ہے۔ لیکن ٹرمپ نے اپنے حلقہ انتخاب، اور امریکا کے ووٹرز اور سپورٹرز جو کہ سفید فام افراد کے غلبے کی پالیسی پر ہی زیادہ انحصار کرتے رہے، اور اس میں کافی حد تک کامیابی بھی ملی لیکن جب 13جولائی کو ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو اس کے بعد سوئنگ اسٹیٹس اور کسی حتمی فیصلے تک نہ پہنچنے والے ووٹرز میں سے بھی ٹرمپ کی حمایت کیلئے آوازیں اٹھنے لگیں لیکن اس میں اہم عنصر جون کے صدارتی مباحثے میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کارکردگی بھی تھی۔

اب جبکہ امریکا میں صدارتی انتخابات کو 120 دن کے لگ بھگ عرصہ باقی بچا ہے اور آج جوبائیڈن نے صدارتی انتخابات سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے کملا ہیرس کو اپنی پارٹی کی نئی صدارتی امیدوار کی حیثیت سے اپنے مکمل تعاون کا بھی اعلان کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ صدر جوبائیڈن کے اس فیصلے کے عالمی منظر نامے، خطے کی صورتحال اور دیگر ممالک سے امریکا کے تعلقات پر کیا اثرات رونما ہوں گے؟ آئیے، اس تمام تر صورتحال پر ایک نظر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

امریکی اندرونی سیاست میں ڈونلڈ ٹرمپ کے متعلق محسوس ہوتا ہے کہ نمایاں تبدیلی لانے کی کوشش کریں گے جس میں سر فہرست چینی مصنوعات پر مزید ٹیکسز کا نفاذ ہے تاکہ امریکا کی صنعتوں کو مزید تقویت ملے اور ساتھ ہی ساتھ انڈسٹریالائزیشن میں اضافے کے باعث امریکی عوام کو روزگار کے بہتر مواقع میسر آنے کی امید اور مہنگائی میں کمی کی توقع ہے۔ ری پبلکن پارٹی یقین رکھتی ہے کہ خواتین کو اسقاطِ حمل کا حق نہیں ملنا چاہئے جس پر ان کے ووٹرز اور سپورٹرز کی ایک بڑی تعداد دو حصوں میں منقسم نظر آتی ہے۔

اب محسوس ہوتا ہے کہ ری پبلکن پارٹی اسقاطِ حمل کے معاملے پر اپنے مؤقف پر قائم رہے گی اور اب غزہ جنگ اور روس یوکرین جنگ کے معاملے پر بھی پارٹی پالیسی کو دیکھا جائے گا۔ یوکرین کے سلسلے میں ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ وہ 24گھنٹوں میں ہی یوکرین جنگ بند کرادیں گے جبکہ غزہ کے معاملے پر امریکا کی خارجہ پالیسی میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی ہوتی نظر نہیں آتی بلکہ امریکا  ڈونلڈ ٹرمپ کے برسر اقتدار آجانے کی صورت میں بھی اسرائیل کی امداد جار ی رکھے گا۔

یہ امریکی تاریخ کی ایک نمایاں سی بات ہے کہ امریکا کے 2 سابق صدور اپنی شہرت کم ہونے کی وجہ سے صدارتی انتخاب کی دوڑ سے پیچھے ہٹ گئے تھے جس میں صدر جیمز اور صدر جانسن شامل ہیں، جس کی وجوہات مختلف رہیں ۔ سن 1860 میں صدر جیمز بکانن کی شہرت غلامی کے معاملے پر ہونے والی بحث اور 1968 میں صدر جانسن کی شہرت ویتنام جنگ کی وجہ سے کم ہوگئی تو وہ الیکشن سے دستبردار ہوئے۔

کملا ہیرس کو بطور صدارتی امیدوار الیکشن مہم میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ جیسے اہم امیدوار کے مقابلے میں ضرورت سے زیادہ محنت اور تعاون کی ضرورت پڑے گی اور وہ اپنی مہم میں کس حد تک کامیاب ہوں گی؟ یہ کہنا گو کہ قبل از وقت ہے لیکن صورتحال کچھ واضح نظر آرہی ہے کہ ڈیموکریٹ امیدوار کملا ہیرس کی کامیابی کی توقعات بہت ہی کم ہیں، گو کہ کملا ہیر س کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ وہ خواتین کے ووٹ لے سکتی ہیں، اسی طرح سیاہ فام قوم اور بھارتی نژاد امریکیوں کی ہمدردیاں حاصل کرکے اپنے ووٹ بینک میں توسیع کرسکتی ہیں جو ان کیلئے بڑی مثبت پیشرفت ہوگی۔

اگر کسی صورت کملا ہیرس امریکا کی نئی صدر بن جاتی ہیں، جس کی توقع بہت ہی کم ہے، تو امریکا میں پہلی بار کسی سیاہ فام خاتون کے صدر بننے سے نئی تاریخ رقم ہوجائے گی جبکہ صدر جوبائیڈن کی جانب سے صدارتی امیدوار کے طور پر الیکشن سے دستبرداری کے اعلان پر عالمی برادری نے بھی اپنا ردِ عمل دیا ہے۔ یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی نے جوبائیڈن کی حمایت کا شکریہ ادا کیا ہے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم نے صدر جوبائیڈن کے فیصلے کا احترام کیا ہے کہ وہ اپنے لوگوں کے مفاد میں صدارتی انتخاب سے دستبردار ہوئے۔

کینیڈا، آسٹریلیا اور جرمنی کے سربراہانِ مملکت کی جانب سے بھی صدر جوبائیڈن کی صدارتی الیکشن سے دستبرداری پر اپنا اپنا ردِ عمل دیا ہے لیکن پاکستان کی جانب سے وزارتِ خارجہ ، صدر یا وزیراعظم شہباز شریف کا کوئی ایسا بیان جاری نہیں کیا گیا  اور لگتا ہے کہ سیکریٹری خارجہ نے بھی وزیراعظم یا صدر کو کوئی ڈرافٹ بیان بنا کر نہیں بھیجا جس میں صدر جوبائیڈن کے فیصلے پر ردِ عمل دیا جاتا کہ امریکی صدر نے اپنے لوگوں کے مفاد میں جو فیصلہ کیا ہے، پاکستان اس کا احترام کرتا ہے۔

ضروری تھا کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کی طرف سے بھی نہ صرف امریکی صدر جوبائیڈن کے الیکشن سے دستبرداری کے فیصلے پر جذبہ خیر سگالی پر مبنی بیان دیا جاتا بلکہ آنے والے امریکی صدر کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار بھی کیا جاتا تاکہ پاکستان بھی دنیا کے ایسے ممالک کی فہرست میں شامل ہوجاتا جو امریکا سے باہمی تعلقات کو فروغ دینے کیلئے بیانات جاری کر رہے ہیں تاکہ خارجہ پالیسی کو دوام بخشنے میں مدد ملتی، مگر اے کاش، کہ ہمارے لوگ نیند سے جاگ کر ایسے معاملات میں بروقت مؤثر فیصلہ کرسکتے!

Related Posts