گوانتاناموبے کی بندش

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ریاستہائے متحدہ امریکا کا بدنام  قید خانہ گوانتا ناموبے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کی سب سے متنازعہ علامت قرار دیا جاسکتا ہے جسے امریکا کے عالمی تصور پر ایک بدنما داغ سمجھا جاتا ہے۔ جو بائیڈن حکومت نے جائزہ عمل کے بعد اقتدار چھوڑنے سے قبل گوانتا ناموبے کو بند کرنے کی کاوشوں کو دوبارہ زندہ کردیا ہے۔

سابق امریکی صدر بارک اوباما نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک سال کے اندر اندر گوانتا ناموبے کو بند کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن شدید سیاسی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکا نے گوانتا ناموبے کو 2002ء میں غیر ملکی مشتبہ افراد کو قید رکھنے کیلئے قائم کیا جس میں مبینہ طور پر القاعدہ یا طالبان سے تعلق رکھنے والے افراد کو رکھا جاتا ہے۔ یہ جلد ہی قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی اور تشدد کے ساتھ ساتھ قیدیوں کی طویل نظر بندی کے باعث عالمی تنقید اور غم و غصے کا سبب بن گیا، بہت سے افراد نے الزامات یا مقدمے کی سماعت کے بغیر ہی گوانتا ناموبے میں تقریباً 20، 20 برس قید کاٹ لی۔

جو کام بارک اوباما نہیں کرسکے، وہ جو بائیڈن کرنا چاہتے ہیں جبکہ ان کے پیشرو اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گوانتا ناموبے کو نہ صرف کھلا رکھا بلکہ اس میں کچھ خراب دوستوں کا بوجھ ڈالنے کا بھی عزم ظاہر کیا۔ جو بائیڈن سے عالمی برادری بہت زیادہ توقعات وابستہ کر رہی ہے کہ وہ امریکا میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف قابلِ اعتماد اور مؤثر آواز ثابت ہوسکیں گے۔ امریکا نے یغور اور روہنگیا مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن گوانتا ناموبے ایک ایسا داغ ہے جو امریکی سفارت کاری پر بھی اپنا اثر چھوڑ دیتا ہے۔

اپنے عروج پر اس عقوبت خانے میں 680 قیدیوں کو رکھا گیا تھا جن میں نائن الیون حملے کا ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد بھی شامل تھا۔ جو بائیڈن دور میں گوانتا ناموبے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کم ہوسکتی ہیں کیونکہ یہاں اب صرف 40 قیدی باقی ہیں اور لوگوں کی توجہ بھی اس طرف کم جاتی ہے۔پھر بھی توقع کی جارہی ہے کہ جو بائیڈن کو بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا گا کیونکہ زیرِ حراست افراد کو امریکی سرزمین میں نہیں رکھا جاسکتا کیونکہ اس سے حفاظتی خطرات جنم لے سکتے ہیں اور دیگر ممالک کو بھی انہیں قبول کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

خود امریکا میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے طویل عرصے سے گوانتا ناموبے کو بند کرنے کیلئے مہم چلائی ہوئی ہے۔ تقریباً 20 برس سے امریکا نے سیکڑوں افراد کو انصاف دینے سے انکار کر رکھا ہے جو کسی بھی قسم کا مقدمہ چلائے بغیر قید و بند کی صعوبتیں سہنے پر مجبور ہیں اور یقیناً دہشت گردوں سمیت کسی بھی شخص کے ساتھ بہیمانہ تشدد یا تھرڈ ڈگری کا استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ گوانتا ناموبے کی مسلسل موجودگی عالمی برادری کو امریکا کی طرف سے بے جا نظر بندی کی مشقوں کی یاد دہانی ہوگی جس کا تعلق تشدد کے الزامات سے بھی جوڑا جاتا ہے، پھر بھی یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ گوانتا ناموبے کا سیاہ باب اتنی جلدی بند ہوجائے۔ اگر جو بائیڈن امریکا کا کھویا ہوا وقار عالمی برادری میں بحال کرنا چاہیں تو بدنامِ زمانہ عقوبت خانہ بند کرکے ایسا کیا جاسکتا ہے جبکہ سالہا سال سے گوانتا ناموبے امریکا کی بدنامی کا باعث ہے۔ 

Related Posts