کراچی:حکومتوں کا کام مذمتی قراردادیں پاس کرنا نہیں، عملی اقدامات کرے،فرانس میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت اور پھرفرانسیسی صدر کی اس شر مناک حرکت کی پشت پناہی امتِ مسلمہ کے لیے ایک بہت بڑا المیہ اور ذہنی اور قلبی اذیت کا سبب ہے،ان خیالات کا اظہار مفتی منیب الرحمن نے ممتاز علماء وزعمائے اہلسنّت کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ توہینِ رسالتؐ پر کسی سربراہِ مملکت کی حوصلہ افزائی پہلا واقعہ ہے۔اس نے مسلمانوں کے دل مجروح کردیے ہیں اور یہ سوچی سمجھی سازش ہے تاکہ مسلمان محبت رسولؐ میں سرشار ہوکر اشتعال کی کیفیت میں کوئی جوابی کارروائی کریں اورپھر انہیں عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دیا جائے۔
مفتی منیب الرحمن کا کہنا تھا کہہماری حکومت، پارلیمنٹ اورسیاست دانوں نے مذمتی قراردادیں پاس کیں اور بیانات جاری کیے، ہم اس کی تحسین کرتے ہیں، لیکن حکومتوں کاکام صرف مذمتی قراردادیں پاس کرنا نہیں ہوتا، بلکہ عملی اقدامات بھی کرنے ہوتے ہیں، جو تاحال نظر نہیں آرہے۔
اگر سفیر کو بلاکر احتجاج کا پروانہ ہاتھ میں دینے سے مسئلہ حل ہوتا تو ہماری وزارتِ خارجہ نے بھارتی سفارت کاروں کو گزشتہ برسوں میں اتنے احتجاجی پروانے دیے ہیں کہ” گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ”میں اس کا اندراج ہوسکتا ہے، کم از کم اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر فرانس سے اپنے سفارت کارکو احتجاجاًواپس بلایا جائے اور فرانسیسی سفیر مرک بیریٹی کو ملک بدرکیاجائے تاکہ فرانسیسی حکومت کو اس شرانگیزی اوردہشت گردی کی شدّت و حِدَّت کا صحیح ادراک ہوسکے۔
انہوں نے کہا کہ فرانس میں بعض مساجد اور اسلامی مراکز کا بند کیا جانا آزادیِ مذہب کے خلاف ہے، اس مسئلے کو یورپین یونین اور اقوامِ متحدہ کی سطح پر اٹھایا جائے۔ پاکستان اورترکی کے سوا کسی مسلم حکمران کی جانب سے کوئی توانا ردِّ عمل نہیں آیا۔
اگر اسلامی کانفرنس کی تنظیم ”او آئی سی” مُردہ ہوچکی ہے تو پاکستان کو پہل کر کے خود کوئی بین الاقوامی سربراہی یا وزرائے خارجہ کی سطح پر کانفرنس منعقد کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنی حکومت کی مجبوریوں اور تحدیدات کا احساس ہے، لیکن ایمان اور عقیدے کا مسئلہ قیمت مانگتا ہے، آج کی دنیا میں بیانات کو اہمیت نہیں دی جاتی۔
ہم الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پاکستانی مارکیٹوں میں موجود فرانسیسی مصنوعات کی فہرست شائع کریں تاکہ لوگوں کو آگہی ہو اوربائیکاٹ مہم کی تشہیر کریں،نیزمتحرک مذہبی تنظیمیں تمام سپر اسٹورز کے سامنے نمایاں انداز میں یہ فہرستیں آویزاں کریں۔
فرانس کی بیشتر درآمدات کا تعلق بنیادی ضرورتوں سے نہیں ہے، بلکہ سامانِ تعیُّش سے ہے، اس سے پاکستان پر کوئی اثر نہیں پڑے گااور یہ تنظیمیں وفد بناکر درآمد کنندگان سے ملیں اور فرانسیسی مصنوعات کی درآمد کا سلسلہ رکوائیں، کیونکہ حکومت کے لیے سرکاری سطح پر ایسا فیصلہ کرنا اگرچہ نہایت خیر کا باعث ہوگا، لیکن دشوار امر ہے۔