پندرہ ماہ بعد اسرائیلی فوج کا انخلا

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

آج اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ اس نے غزہ کے نتساریم محور سے اپنے انخلا کو مکمل کرلیا ہے۔ یہ عمل اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت کیا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے ایک سال اور تین ماہ سے زائد عرصہ تک اس علاقے پر قبضہ کیا تھا۔

اسرائیلی فوجی ریڈیو نے کہا ہماری فوج نے نتساریم سے مکمل طور پر انخلا کر لیا ہے۔ یہ اعلان اس وقت کیا گیا جب گزشتہ روز اسرائیلی فوجیوں کو نتساریم محور سے انخلا کے احکام جاری کیے گئے تھے۔ یہ کوریڈور شمالی غزہ کو جنوبی پٹی سے الگ کرتا ہے۔ اسرائیلی میڈیا نے ایک ویڈیو بھی نشر کی جس میں ایک فوجی افسر اپنے اہلکاروں کو محور سے مکمل انخلا کی ہدایات دیتا دکھائی دیتا ہے۔ اس سے پہلے اسرائیلی اخبار ہآرتس نے بتایا تھا کہ فوج کے انخلا کا عمل اتوار کی صبح تک مکمل ہونے کی توقع تھی، جو کہ جنگ بندی معاہدے کے تحت تھا۔
اسرائیلی فوج نے 19 جنوری 2025ء کو نافذ ہونے والے جنگ بندی معاہدے کے ساتویں دن نتساریم محور سے جزوی انخلا کا پہلا عمل انجام دیا تھا۔ اخبار یدیعوت احرونوت کے مطابق، انخلا کے لیے مخصوص مقامات شارع صلاح الدین کے مشرق میں واقع ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ کے وسط اور شمالی حصوں میں کوئی بھی موجودگی نہیں رکھے گی، سوائے فوجی یونٹ 162 کے جو سرحد کے قریب علاقے کی محفوظ پٹی پر پھیلا ہوا ہے۔ اخبار کے مطابق، فی الحال اسرائیلی فوج کی موجودگی صرف جنوبی غزہ میں فیلالڈلفیا محور تک محدود رہے گی۔
اخبار نے یہ بھی ذکر کیا کہ نتساریم محور اسرائیلی فوج کے لیے ایک اسٹرٹیجک نقطہ تھا، جہاں سے وہ فوجی کارروائیاں انجام دیتی تھی اور یہ مقامات اسرائیلی آبادکاروں کے لیے بھی اہمیت رکھتے تھے، جو شمالی غزہ میں دوبارہ آباد ہونے کی خواہش رکھتے تھے۔ اسرائیلی فوج نے نتسارم محور کے ذریعے غزہ کی پٹی کو دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کرکے شمال کو جنوب سے بالکل الگ کر دیا تھا۔ اس محور میں فوجی بلڈورز کے ذریعے گہرائی تک کھدائی کی گئی، جس کا مقصد حماس کی سرنگوں کا سراغ لگانے کے ساتھ پٹی کے دونوں حصوں سے ایک دوسرے سے کاٹنا تھا۔ اسی محور کے ذریعے اسرائیلی فوج نے شمال کا محاصرہ سخت کردیا۔ اس علاقے کو آبادی کے خالی کرنے کے بعد سارے مکانات گرا کر اسے کھلے میدان میں تبدیل کر دیا گیا اور پھر جنرلز پلان کے اجرا کے بعد یہاں نظر آنے والے ہر فلسطینی کو گولی مار دی جاتی تھی۔ معاہدے کے نفاذ کے بعد جنوب سے شمال جانے والے غزہ کے باشندوں کی یہاں تلاشی بھی لی جاتی تھی۔
فوجی ماہر اور حکمت عملی کے ماہر لیفٹیننٹ جنرل فائز الدویری نے نتساریم محور سے انخلا کی اہمیت پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ الجزیرہ سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کا نتساریم محور سے انخلا جنگ میں ایک اسٹرٹیجک موڑ کی نمائندگی کرتا ہے، کیونکہ اسرائیل کی منصوبہ بندی غزہ کے علاقے کو تقسیم کرنے اور شمالی غزہ پر قابو پانے میں ناکام ہوگئی۔ جنرل الدویری نے غزہ میں فوجی منظرنامے پر تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے علاقے میں مستقل موجودگی قائم کرنے کی کوشش کی تھی، مگر اسے جنگوں کے دباؤ اور سیاسی معاہدوں کے تحت پیچھے ہٹنا پڑا۔ جو مزاحمت کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی فوج نے نِتساریم محور کو توسیع دے کر اس کا عرض 80 کلومیٹر تک اور گہرائی 6.5 سے 7 کلومیٹر تک پہنچا دیا اور 4 مرکزی مقامات قائم کیے، جن کی حفاظت کے لیے 4 اضافی فوجی مقامات بھی بنائے گئے تھے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اگرچہ اسرائیلی فوج نے اپنے وجود کو مستحکم کرنے کے لیے یہاں نئے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر شروع کی تھی، لیکن ان کی بیشتر سہولتیں قابلِ تجزیہ تھیں، جو اس بات کا اشارہ تھا کہ اسرائیل کسی بھی وقت انخلا کر سکتا ہے۔
الدویری نے وضاحت کی کہ حالیہ معاہدہ اسرائیل پر نِتساریم سے مکمل انخلا کا دباؤ ڈال رہا ہے اور فوجی ماہر نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کو نہ تو فیلالڈلفیا محور میں رہنے کی اجازت ہوگی اور نہ ہی وہ بعد میں محفوظ زون میں اپنی موجودگی قائم رکھ سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی منصوبے کا مقصد غزہ کے شمالی علاقوں کو مکمل طور پر اپنے قبضے میں لینے کا تھا، لیکن مزاحمت نے ایک مختلف چال چلی، جس کے نتیجے میں اسرائیل کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ الدویری کے مطابق اسرائیل غزہ سے نیتساریم مکمل انخلا کے عمل میں تاخیر کرنے کی کوشش کر سکتا ہے، لیکن آخرکار اسے معاہدے کے مطابق 22ویں دن یعنی اتوار تک انخلا مکمل کرنا ہوگا۔ اس محور سے انخلا کے ممکنہ نتائج کے بارے میں وضاحت دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ شہریوں کی نقل و حرکت کو آسان بنائے گا، خاص طور پر اس محاصرہ کے پس منظر میں جو اسرائیل کے محور پر قابو پانے کی وجہ سے عائد کیا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ فلسطینیوں کو جزوی طور پر ہی سہی، مگر خودمختاری واپس دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ منظرنامہ اسرائیل کی پالیسیوں سے بالکل مختلف ہے، جو ایک نیا سیاسی حقیقت مسلط کرنا چاہتا تھا۔
الدویری نے کہا کہ نیتساریم سے انخلا صرف ایک فوجی قدم نہیں ہے، بلکہ اس کے سیاسی اور اسٹرٹیجک پہلو بھی ہیں، کیونکہ یہ اسرائیلی نقطہ نظر اور جبر کی پالیسی کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ مزاحمت اور مذاکرات کی قوت نئے میدانوں کی تخلیق کر سکتی ہے۔ واضح رہے کہ غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ 19 جنوری 2025 کو شروع ہوا تھا، جس میں تین مراحل شامل ہیں، ہر ایک مرحلہ 42 دن تک جاری رہنا ہے۔ پہلے مرحلہ جاری ہے۔ اس کے بعد دوسرے اور پھر تیسرے مرحلے کے آغاز کے لیے مذاکرات نئے کیے جائیں گے، جس میں قطر، مصر اور امریکہ ثالث کے طور پر شامل ہیں۔ یہ مذاکرات دوحہ میں دوبارہ شروع ہو چکے ہیں۔

Related Posts