غزہ میں تشدد کی حالیہ لہر بالخصوص کرسمس کے موقع پر المغازی پناہ گزین کیمپ پر تباہ کن اسرائیلی فضائی حملے نے اس تلخ حقیقت کو واضح طور پر عیاں کردیا ہے کہ ہم جس دنیا میں ہیں وہاں انسانیت، انصاف اور انسانی حقوق کے عالمی اعلانات کے باوجود جنگل کا قانون رائج ہے اور طاقت ور کو صحیح سمجھا جاتا ہے۔
اس اندوہناک رات میں 70 فلسطینی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جن میں اکثریت خواتین اور معصوم بچوں کی تھی۔ ہر گزرتا دن اسرائیلی بربریت میں اضافے کا گواہ ہے اور فلسطینی شہریوں کی ہلاکتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ عالمی برادری ان مظالم کو روکنے کی اپنی کوششوں میں بری طرح ناکام رہی ہے جس سے معصوم جانیں ضائع ہورہی ہیں۔
بڑھتے ہوئے اموات کے اعداد و شمار ایک پریشان کن انداز ے کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس سال 7 اکتوبر سے اب تک غزہ پر اسرائیلی بمباری میں 20 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں اور 55 ہزار اضافی زخمی ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے اسرائیلی بربریت کی مذمت میں قراردادیں منظور کرنے کی بارہا کوششوں کے باوجود امریکہ نے اپنے ویٹو پاور کو استعمال کرتے ہوئے ان کوششوں کو مسلسل ناکام بنایا ہے۔ یہ صریح رکاوٹ عالمی سطح پر انسانی حقوق کے حوالے سے امریکہ کی منافقت کو واضح کرتی ہے۔
اسرائیلی جارحیت عالمی امن کو برقرار رکھنے اور اقوام کے درمیان تنازعات کے حل میں اقوام متحدہ کی افادیت کے بارے میں سنگین سوالات کو جنم دیتی ہے۔اگر اقوام متحدہ اسرائیل کو فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے سے نہیں روک سکتا تو تنظیم کے بنیادی مقصد کے بارے میں سوالات اُٹھ رہے ہیں، دنیا ایک ایسے عالمی ادارے کے مقصد پر سوال اٹھاتی ہے جو انسانی حقوق کی اس طرح کی سنگین خلاف ورزیوں کے باوجود معصوم جانوں کی حفاظت نہیں کر سکتا۔