اسرائیل نے یکم اپریل کو ایرانی قونصلیٹ پر حملہ کیا اور اس وقت بھی کوشش کی کہ امریکا ساتھ مل کر ایران پر ٹوٹ پڑے لیکن اس وقت اسرائیل کو امریکا کو جنگ میں کھینچ کر لانے میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی کیونکہ امریکا اس مرحلے پر مشرقِ وسطیٰ کے شعلوں کو نہ بھڑکاتے ہوئے اسرائیل کے اہداف پورے کرنے کیلئے مدد کر رہا ہے ۔ لبنان پر تو اسرائیل نے 1982 میں بھی حملہ کیا تھا اور 2 ماہ تک یہ جنگ جاری رہی تھی۔ پھر اسرائیل نے 2006 میں بھی لبنان پر حملہ کیا اور یہ جنگ 34 روز تک چلی۔
دونوں جنگوں میں بہت سا جانی و مالی نقصان ہوا ، لیکن سوال یہ ہے کہ اسرائیل جو کہ غزہ میں ایک سال سے جنگ جاری رکھے ہوئے ہے، اب لبنان پر حملہ کرکے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟ کیونکہ موجودہ منظر نامہ پہلے کے مقابلے میں کافی پیچیدہ ہے ، اور اس بار جو آگ بھڑکے گی، اس کو سنبھالنا کسی کے بس کی بات نہیں رہے گی۔ ایران اور امریکا دونوں جانتے ہیں کہ خطے کی صورتحال کتنی کشیدہ ہے، یہی وجہ ہے کہ ایران نےقاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد جو حملہ کیا وہ کو آرڈینیشن کے ساتھ ہوا اور اسی طرح جب شام میں قونصل خانے پر حملہ ہوا تو اس کے جواب میں بھی نپا تلا جواب دیا گیا۔
حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی ایران میں شہادت کے بعد ایران نےتو ماضی کی روایات برقرار رکھتے ہوئےبدلہ لینے کا اعلان کیا تھا، لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ اسرائیل نے اگر لبنان پر حملہ کیا تو گلف میں بھی اس کے خلاف عوامی غم و غصہ عروج پر ہے اور عوام کو سربراہانِ مملکت سے امیدیں وابستہ ہیں کہ اسرائیل کی دراندازی کو مل کر لگام دی جاسکے، لیکن اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو عوام کی جانب سے سخت مزاحمت ہوگی۔
اگر ہم تمام تر صورتحال میں 57اراکین پر مشتمل او آئی سی کے کردار کا جائزہ لیں تو یہ ادارہ کسی بھی کارگزاری یا ایکشن سے محروم نظر آتا ہے۔ او آئی سی کے چارٹر کے پہلے ہی باب میں مقبوضہ فلسطین کی حمایت اور مدد کا عہد کیا گیا ہے۔ آرٹیکل 18 میں ایک اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل رکھا گیا ہے جو فلسطین اور القدس الشرف کے معاملے کی نگرانی کرے اور مسئلہ فلسطین پر مسلمانوں اور عالمی برادری کا شعور بیدار کرتا رہے تاہم او آئی سی کا عملی کردار اس معاملے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔
دوسری جانب اسرائیل امریکا کو جنگ میں گھسیٹ کر ایک تیر سے دوشکار کرنا چاہتا ہے۔ ایک جانب تو اسرائیل حزب اللہ اور حماس کا شکار کرنا چاہتا ہے اور دوسری جانب ایران ہی اس کا اصل ہدف ہے جسے وہ نشانہ بنانے کے درپے ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ایران کی جوہری افزودگی 65 سے 70فیصد تک پہنچ گئی ہے اور وہ بہت جلد ایٹم بم بنا سکتا ہے اوراگر ایسا ہوا تو ایران پاکستان کے بعد دوسری اسلامی ایٹمی طاقت بن جائے گا۔
ایسے میں اسرائیل سمیت دیگر ممالک کو جو پاکستان اور ایران جیسے ملکوں کو ترقی کرتے اور آگے بڑھتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتے اور جنگ سے ڈرا دھمکا کر رکھنا چاہتے ہیں، ایران جیسے ملک کا کھٹکنا کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں تاہم اس تمام تر صورتحال کے تناظر میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا یہ بیان بھی اہم ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ لبنان میں جنگ کو آگے نہ بڑھنے دیا جائے اور یہ کہ اقوامِ متحدہ لبنان کو دوسرا غزہ نہیں بننے دے گا۔
اگر ہم غزہ کی صورتحال کا جائزہ لیں تو غزہ میں اسرائیل نے حال ہی میں ایک اسکول پر بمباری کی جس میں بچوں اور خواتین سمیت 22افراد شہید ہوگئے۔یاد رہے کہ اس سے قبل بھی اسرائیلی فوج کی جانب سے کئی اسکولوں پر بمباری ہوچکی ہے اور ان حملوں کے نتیجے میں بچوں اورخواتین سمیت ہزاروں فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ اسرائیل نے جس انداز سے بچوں کو نشانہ بنایا، اس کے خلاف سلامتی کونسل میں قرارداد بھی پیش کی گئی تھی۔ سلامتی کونسل کی وہ قرارداد بھی موجود ہے جس میں 2ریاستی حل کی بات کی گئی، جس پر اب تک کوئی عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ مسئلہ فلسطین پر ایسی ہی کئی قراردادیں پہلے بھی منظور ہوچکی ہیں جن میں دوریاستی حل کی بات بھی کی گئی۔
سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 242 کی بات کی جائے تو اسرائیل نے مقبوضہ فلسطین کے جن علاقوں پر عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے قبضہ کیا ہے، صیہونی ریاست کو وہ تمام علاقے خالی کرنا ہوں گے لیکن اقوامِ متحدہ کا یہ ادارہ بھی اسرائیل اور امریکا کے مقابلے میں ہیچ نظر آتا ہے۔ سلامتی کونسل کے ادارے میں جب بھی ایسی قراردادیں پیش کی جاتی ہیں یا ایکشن کا مرحلہ آتا ہے تو امریکا جیسے ممالک ان کو ویٹو کردیتے ہیں۔
امریکا نے کم و بیش 18 بار تو فلسطین کی رکنیت کا معاملہ ویٹو کیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اسرائیل ہی مغرب اور مغرب ہی اسرائیل ہے ۔ امریکا اور اتحادی ممالک ہر وقت اسرائیل کی مدد کیلئے پیش پیش رہتے ہیں اور ان کے بحری بیڑے بھی اس لیے میڈیٹرینین سی اور ایشیا پیسفک میں موجود ہیں کہ کہیں یہ ممالک مل کر اسرائیل کو دبوچ نہ لیں۔ ہوسکتا ہے کہ ایران اگر اسرائیل پر حملہ کرے تو پھر امریکا کو بھی جنگ میں کودنا پڑے۔
آخر میں یروشلم پوسٹ میں عمران خان کے متعلق شائع مضمون کا ذکر بھی ضروری ہے جس میں یہ کہا گیا کہ عمران خان اسرائیل کے حمایتی ہیں اور اسی طرح ایک اور اخبار نے عمران خان کو پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کیلئے موزوں ترین شخص قرار دیا گیا تھا۔ ایک وی لاگر جو آذر بائیجان کی رہنے والی ہیں ، اینو ر بشیرووا جو آج کل یورپ میں رہ رہی ہیں، انہوں نے آرٹیکل لکھاتھا جسے اسرائیلی اخبار نے حاصل کرلیا۔
اگر ہم یہ بات کریں کہ بانی پی ٹی آئی اسرائیل کے حامی کیسے ہیں؟ تو اس کا جواب کچھ یوں ملتا ہے کہ اسرائیل ابراہیم اکارڈ کی طرح باقی ممالک میں بھی مختلف لیڈران کے ذریعے اپنے آپ کو منوانے کی کوشش کررہا ہے جس میں پاکستان جیسے ملکوں کے لیڈران فوقیت کے حامل ہوا کرتے ہیں۔ ملکی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنا ففتھ جنریشن وار اور اسرائیل سمیت ہمارے مخالف ممالک کی خواہش ہے جبکہ عوام الناس کو ففتھ جنریشن وار کی لپیٹ میں آنے سے بچانے کی ضرورت ہے۔