غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں جہاں بڑے پیمانے پر معصوم فلسطینیوں کی قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں، وہیں عبادت گاہیں بھی بطور خاص اسرائیلی جارحیت کے نشانے پر ہیں۔
اسرائیل غزہ میں مساجد اور عبادت گاہوں کو بطور خاص کیسے نشانہ بنا رہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حملوں سے پہلے غزہ میں کل مساجد کی تعداد 12 سو تھی، جن میں سے 1000 مساجد کو اسرائیل نشانہ بنا چکا ہے۔
عرب امور کے معروف پاکستانی تجزیہ کار ضیاء چترالی نے غزہ کے محکمہ اوقاف کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ قابض قوت نے ایک ہزار مساجد کے ساتھ درجنوں قبرستانوں کو بھی پیوند خاک کر دیا اور سو سے زائد مبلغین کو شہید کر دیا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق غزہ میں اوقاف اور مذہبی امور کی وزارت نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیلی قابض فوج نے غزہ کی پٹی میں گزشتہ 7 اکتوبر سے جاری جنگ کے دوران ایک ہزار مساجد اور درجنوں قبرستانوں کو تباہ کر دیا اور ایک سو سے زائد مبلغین کو قتل کر دیا۔
وزارت نے فلسطینی انفارمیشن سینٹر کے ذریعے جاری کردہ ایک بیان میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مکمل طور پر اور جزوی طور پر تباہ ہونے والی مساجد کی تعداد 1000 ہے، جن میں قدیم مساجد بھی شامل ہیں۔
وزارت کے مطابق اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے درجنوں قبرستانوں کو تباہ اور قبروں کو اکھیڑ ڈالا ہے اور نئے مدفون شہدا کی سینکڑوں لاشیں چرائی ہیں۔
فلسطینی محکمہ اوقاف نے تصدیق کی کہ اسرائیلی قابض فوج نے مساجد کے ساتھ ساتھ مسیحیوں کی عبادت گاہوں کو بھی نشانے پر رکھا ہوا ہے۔
محکمہ اوقاف کے مطابق غزہ دنیا کے قدیم ترین گرجا گھروں اور مساجد کا گھر ہے، لیکن ان میں سے بہت سے اسرائیل کی فوجی کارروائی کے نتیجے میں ہونے والی تباہ ہوگئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق غزہ کا سینٹ پورفیریئس دنیا کے قدیم ترین گرجا گھروں میں سے ایک ہے۔ بہت سے فلسطینی عیسائیوں نے اسرائیلی جارحیت کے دوران اس چرچ میں پناہ لی، اس یقین کے ساتھ کہ وہ محفوظ ہوں گے، لیکن 19 اکتوبر کو جیسے ہی رات ہوئی، ایک اسرائیلی میزائل نے چرچ کی عمارت کو نشانہ بنایا، جس میں 18 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔
اس طرح اسرائیل غزہ کی پٹی پر عام انسانوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں اور مسیحیوں کی عبادت گاہوں کو بھی بڑے ظالمانہ طریقے سے تباہ کرنے کے منصوبے پر کاربند ہے۔