سویڈن میں اسلاموفوبیا

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مسلم دنیا کو سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے ایک اور واقعہ کا سنجیدگی سے نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔

ایک انتہائی اشتعال انگیز اور قابل نفرت فعل میں ملوث ایک ملعون شخص نے عیدالاضحٰی کے موقع پر سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم کی ایک مسجد کے باہر مسلمانوں کی مقدس ترین کتاب قرآنِ مجید کا نسخہ نذرِ آتش کردیا۔ اس واقعے سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں بھرپور غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

کئی مسلم ممالک نے اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے، خاص طور پر ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اس واقعے پر سویڈن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ترکی اشتعال انگیزی کی پالیسی کے سامنے کبھی نہیں جھکے گا۔ اس واقعے کے سیاسی اثرات بھی ہیں کیونکہ سویڈن نیٹو اتحاد میں شامل ہونا چاہتا ہے اور اسے ترکی کی حمایت کی ضرورت ہے۔

عراقی دارالحکومت اور قاہرہ کے بعد عرب دنیا کے سب سے بڑے شہر بغداد میں اس واقعے کے خلاف مظاہرے ہوئے کیونکہ اس گھناؤنے فعل کا ارتکاب کرنے والا شخص عراقی نژاد تھا اور چند سال قبل سویڈن فرار ہو گیا تھا۔ سینکڑوں عراقی مظاہرین نے بغداد میں سویڈن کے سفارت خانے پر دھاوا بول دیا اور عراقی حکومت سے سویڈن سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کیا۔

سعودی عرب اور ایران سمیت دیگر ممالک نے بھی اس قابلِ نفرت واقعے کی مذمت کی ہے۔او آئی سی نے قرآن پاک کی بے حرمتی اور مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے بار بار ہونے والے واقعات پر غور کے لیے ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔

مسلم دنیا کو اس واقعے کی نہ صرف مذمت بلکہ مضبوط مؤقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔ یورپی ممالک کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آزادئ  اظہار کی آڑ میں ایسے واقعات کا بہانہ تلاش نہیں کیاجاسکتا۔

یہاں تک کہ یورپی یونین بھی اس واقعے کی مذمت کیلئے بیان جاری کرنے پر مجبور ہوئی، جس میں کہا گیا کہ یہ واقعہ ”یورپی اقدار“ کی عکاسی نہیں کرتا ہے اور نسل پرستی ، زینو فوبیا اور عدم برداشت کی یورپ میں کوئی جگہ نہیں۔

واقعے کی مذمت کرتے ہوئے سویڈن حکومت نے بھی قرآنِ پاک جلانے والے ملعون شخص کو انفرادی طور پر موردِ الزام ٹھہرایا جو سراسرڈھونگ ہے کیونکہ اسی شخص کو سویڈن حکومت نے مسلمانوں کی بڑی عبادت گاہ کے سامنے قابلِ نفرت کارروائی کرنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ سکیورٹی بھی فراہم کی تھی۔

ضروری ہے کہ پاکستان اسلام دشمنی کے واقعات کو پھیلنے سے روکنے کے لیے قائدانہ کردار ادا کرے، تاہم پاکستان کی جانب سے دفترِ خارجہ، صدر، وزیر اعظم اور دیگر سیاستدانوں نے رسمی بیانات جاری کردئیے ہیں جبکہ حکومت کو سویڈش مصنوعات کا بائیکاٹ بھی کرنا چاہئے تھا۔

مصنوعات کا بائیکاٹ اس قسم کے اقدامات کو روکنے کیلئے علامتی اقدام ثابت ہوسکتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ مسلم ممالک ایسے توہین آمیز اقدامات پر سخت مؤقف اختیار کریں جبکہ ایسے واقعات سے مسلم ممالک کی تہذیب و تمدن اور شناخت کو مسخ کرنے کی کویششیں جاری ہیں۔

ایسے واقعات سے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے جس کی آزادئ اظہارِ رائے کی کسی بھی صورت کے تحت اجازت نہیں دی جاسکتی۔ 

Related Posts