اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت میں حالیہ کچھ ماہ کے دوران امن و امان کی مجموعی صورتحال انتہائی غیرتسلی بخش رہی جس کے باعث قتل، اغوا، اسٹریٹ کرائمز، جنسی زیادتی اور دیگر جرائم کے بڑھتے ہوئے انڈیکس نے پورے پاکستان اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو تشویش میں مبتلا کئے رکھا ہے۔
نورمقدم کیس، عثمان مرزا کیس سے لیکر دیگر غیرقانونی سرگرمیوں کے تانے بانے منشیات فروشوں سے جڑے ہیں۔ انتہائی باوثوق ذرائع کے مطابق کئی تھانوں کی حدود میں ہونے والی غیرقانونی سرگرمیوں کا افسران بالا کو علم ہونے کے باوجود کاروائی عمل میں نہیں لائی جاتی جس کی بنیادی وجہ پولیس اہلکاروں اورافسران کا مافیا کے ساتھ گٹھ جوڑہے۔
پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے سلگتا سوال ہے کہ اپنے مستقبل کے ساتھ کیسا خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں جس کا منفی اثر ہماری آنے والی نسلوں پر پڑے گا۔ شہر اقتدار کے مضافاتی تھانے ترنول، شمس کالونی، گولڑہ، بھارہ کہو، سہالہ اور دیگر تھانوں میں غیرقانونی سرگرمیاں منظم ہیں۔زمینوں پر قبضوں سمیت غیرقانونی کاروبارعروج پرہیں جبکہ یہ علاقے منشیات کا بھی گڑھ ہیں۔
اسلام آبادپولیس کو یہ ایڈوانٹج حاصل ہے کہ پی۔ایس۔پی افسران کے علاوہ باقی تمام ملازمین کی تعیناتی اسلام آباد میں ہی رہتی ہے اس لئے اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں کے جرائم پیشہ افراد اور قبضہ مافیا کے کارندوں کے ساتھ مفادات پر مبنی دوستانہ تعلقات ہیں جس کے باعث جرائم پیشہ افراد کے خلاف کاروائی نہیں ہو پاتی۔ اسلام آباد پولیس میں ہی انتہائی قابل اور ایماندار اہلکار اور افسران بھی کام کررہے ہیں جنہوں نے اسلام آباد پولیس کو مثالی پولیس کا ٹائٹل دلوایا۔
منشیات فروشوں، لینڈ مافیا اور دیگر غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد سے گٹھ جوڑنے اسلام آباد کا امن و امان غارت کر رکھا ہے۔ صرف اسلام آباد پولیس ہی نہیں وفاقی دارالحکومت کے دیگر ادارے سی۔ڈی۔اے، کسٹمز، اینٹی نارکوٹکس، ایکسائز اور ضلعی انتظامیہ، وزارت داخلہ بھی برابر کے قصور وار ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ شہر اقتدار کی مارکیٹس اسمگلنگ کے سامان سے بھری پڑی ہیں۔ امپورٹڈ اشیاء سے شہر کے بڑے سپرسٹورز بھرے پڑے ہیں، روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں ٹرکس اسمگلنگ کا سامان لیکر اسلام آباد کی حدودمیں داخل ہوتے ہیں۔
داخلی راستوں میں واقع تھانوں کے اہلکار ایسی جگہوں پر تعیناتی کے لئے رشوت دیتے ہیں۔ کسٹمز اہلکار بھی برائے نام ڈیوٹی کر رہے ہیں۔ اینٹی نارکوٹکس اور پولیس کی جانب سے کاروائی نہ ہونے سے نوجوان نسل منشیات کی لت میں دھنستی چلی جا رہی ہے۔ شہراقتدارمیں سی۔ڈی۔اے بلڈنگ بائے لاز کی خلاف ورزی عروج پر ہے اور شہر بھر میں سیکڑوں گیسٹ ہاؤسز، اور مساج سینٹرز قائم ہیں۔
سی۔ڈی۔اے افسران اورپولیس یہاں سے بھاری رشوت وصول کرتے ہیں۔کیسے ممکن ہے کہ سات سومربع میل کے ایک ضلع میں جہاں ایک علیحدہ آئی۔جی اوردیگراعلی افسران بھی قومی خزانے پربوجھ ہوں تووہاں حیلے بہانے نہیں چلتے۔پولیس اورقانون نافذکرنے والے اداروں کی بنیادی ذمہ داری امن وامان کوبرقراررکھناہے جبکہ منشیات فروشی اوردیگرغیرقانونی سرگرمیوں معاشرتی بگاڑ کا باعث بنتی ہیں۔
چئرمین سی۔ڈی۔اے عامرعلی احمد پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، سی۔ڈی۔اے کی زمین قبضہ مافیا سے واگزار کیوں نہ کرائی جاسکی۔ عامرعلی احمد کس کے کہنے پر قبضہ مافیا کے خلاف کاروائی سے گریزاں ہیں۔ غیرقانونی پلازوں اور ہاؤسنگ سوسائیٹیز کے خلاف عامر علی احمد کاروائی کیوں نہیں کرناچاہتے؟ آئی۔جی اسلام آباد کی کیا ترجیحات ہیں؟ شہر اقتدار کے جرائم میں روز بروز اضافہ کیوں ہورہاہے؟
ضلعی انتظامیہ،سی۔ڈی۔اے اوردیگرادارے جواسلام آبادمیں جرائم کے بڑھنے میں اہم کرداراداکررہے ہیں۔اب وقت آگیاہے کہ ان مسائل کامستقل حل نکالاجائے خاص طورپرزمینوں سے متعلقہ مسائل کاحقیقی حل نکالا جائے تاکہ عدالتی اورسرکاری وقت بچ سکے اور عوامی مسائل بھی حل ہوجائیں۔ شہر اقتدار میں کتنی شراب بیچنے کا کوٹہ ہے جبکہ حقیقت کئی گنا زیادہ غیرقانونی بک رہی ہے۔اس غیرقانونی دھندے میں اسلام آبادپولیس،انتظامیہ اوردیگرقانون نافذکرنے والے اداروں کے کون کون سے افسران حصہ بٹورتے ہیں؟
غیرقانونی پلازوں کے خلاف کاروائی نہ کرکے کس سیاسی جماعت کامفادپوراکیاجارہاہے؟منشیات فروشی اوراسمگلنگ سے بھرے ہوئے سٹورزپرکاروائی کون کرے گا؟سیکٹرای۔الیون میں گذشتہ روزآنے والے سیلاب سے جوجانی ومالی نقصان ہواکیااسلام آبادپولیس،سی۔ڈی۔اے اورضلعی انتظامیہ اس میں برابرکی ذمہ دارنہیں؟
کیااسلام آبادمیں سب سے زیادہ منشیات فروشی تھانہ گولڑہ کی حدودمیں نہیں ہوتی۔ای۔الیون سکیٹراورتھانہ گولڑہ کی حدودمیں کتنے گیسٹ ہاؤسز اور بدنام زمانہ مساج سینٹرزہیں، مساج سینٹر کا کوئی ادارہ پاکستان میں لائسنس جاری نہیں کرتا لیکن بیوٹی پارلرز کے پس پردہ غیرقانونی کام جاری ہے جہاں کسٹمرز کو منشیات بھی مہیا کی جاتی ہیں۔
دوسری جانب آئس نشہ اور سکون دینے والی گولیاں پارٹیوں میں چل رہی ہیں۔ ان ممنوعہ ڈرگز اور نشہ آور ادویات کے استعمال کے باعث کئی افراد خاص طور پر یونیورسٹیوں کے طالب علموں کا مستقبل تاریک ہورہاہے۔ یہ نشہ آور ادویات اور منشیات کہاں سے سمگل ہو رہی ہیں کیا اسلام آباد پولیس اور اینٹی نارکوٹکس کے پاس منشیات کی روک تھام کا کوئی میکانزم ہے؟
اگر ہے تو اس پر عملدرآمد میں کیا رکاوٹ ہے؟ پاکستان کے مختلف شہروں اور دنیا بھر سے آنے والے عوام کواس بات کا علم ہے کہ شہر اقتدار کے پوش سیکٹرز میں پولیس کی مدد سے قائم غیرقانونی گیسٹ ہاؤسز، مساج سینٹرز اور شیشہ سینٹرز میں عیاشی کا سارا سامان مل جاتا ہے۔ شہر اقتدار میں عیاشی کی غرض سے آنے والوں کو اور مقامی افراد کو اس بات کا علم ہے کہ اسلام آباد پولیس کو باقاعدہ حصہ ملتا ہے اس لئے کوئی نہیں پوچھتا۔
کیسے ممکن ہے ملک کی طاقتور ایجنسیز کے گڑھ میں غیرقانونی سرگرمیاں جاری رہیں جوعالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی کا باعث بنیں۔ مقامی سیاسی قیادت، انتظامیہ اور اسلام آباد پولیس کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ دیرپہ امن و امان کو یقینی بنانے کے لئے سخت اقدامات کئے جائیں تاکہ آنے والی نسلوں کو منشیات اور غیرقانونی سرگرمیوں سے بچایا جاسکے۔
یہ بھی پڑھیں : افغانستان میں امن خطے کی ترقی کا ضامن ہے، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ