حال ہی میں مردوں کے بے شرم ہجوم نے ایک بے بس ٹک ٹاکر عائشہ اکرم نامی خاتون کو سرعام ہراسگی کا نشانہ بنایا ہے جس نے تمام پاکستانیوں کو اضراب میں مبتلا کردیا ہے۔
بدقسمتی سے یہ واقعہ مینار پاکستان کے سامنے آیا جب قوم 14 اگست پر یوم آزادی منا رہی تھی۔ اس واقعے کے بعد سے بہت سے لوگوں کی جانب سے عائشہ اکرم کی حمایت کی جارہی جبکہ ناقدین کی بڑی تعداد انہیں مورد الزام ٹھہرا رہی ہے۔
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ اس کی غلطی تھی اور جب کہ دوسروں کا خیال ہے کہ متاثرہ شخص پر الزام تراشی کا عمل کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسا کیا ہوا کہ کہ عائشہ دو دنوں میں متنازعہ بن گئی ہیں؟
مسلہ
14 اگست کو مینار پاکستان پر 400 کے قریب افراد نے عائشہ اکرم کو ہراساں کیا اور اس پر حملے کیے۔ عائشہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہاں شوٹنگ کے لیے گئی تھی کہ وہاں موجود لوگوں نے اس پر حملہ کردیا۔
عائشہ اکرم کو عوامی طور پر ذلیل کیا گیا، اور یہ سب کچھ دن کی روشنی میں ہوا اور بھی مینار پاکستان کے بالکل سامنے۔ مگر کوئی اسے بچانے کے لیے نہیں آیا۔
وائرل ہونے ویڈیو اصل میں ان لوگوں کے لیے تذلیل کا باعث ہے جنہوں نے عائشہ اکرم کے بدتمیزی کی،کپڑے تار تار کیے اور اس کو لوٹا۔
عائشہ کا اپنے بیان میں کہنا ہے کہ کچھ لوگوں نے اسے بچانے کی بھی کوشش بھی مگر ہجوم اتنا بڑا تھا کہ ان کے ایک نہ چلی اور وہ اس کو ہوا میں اچھالتے رہے۔
متاثرہ خاتون کا کہنا ہے کہ اگر کوئی عورت اپنے ملک میں محفوظ نہیں ہے تو وہ کہیں بھی محفوظ نہیں ہے۔ عائشہ اکرم کا کہناہے کہ ” ایک ٹک ٹاکر ہوں یا یوٹیوبر ہوں یہ میرا اپنا فعل ہے مگر کسی کو حق نہیں پہنچتا ہے کہ مجھے ہراسگی کا نشانہ بنائے اور مجھے برہنہ کرے۔
عائشہ کے مطابق اسے تین گھنٹے تک ہجوم کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ شام 6.30 سے 9 بجے تک لوگ اسے جھنجھوڑتے رہے مگر کوئی اسے بچانے کے لیے نہیں آیا۔ عائشہ نے بتایا کہ اس نے روایتی لباس زیب تن کررکھا تھا اور وہ کبھی بھی فحش لباس نہیں پہنتی ہیں، مگر بھی اسےعوامی سطح پر تذلیل کا نشانہ بنایا گیا۔
ایف آئی آر کا متن کیا کہتا ہے؟
مذکورہ ایف آئی آر 354 اے ، 382، 147 اور 149 کی دفعات کے تحت درج کی گئی ہے، مقدمے میں خاتون کے کپڑے پھاڑنا، چوری، اقدامِ قتل، زخمی کرنا، فساد اور غیر قانونی ہجوم سمیت دیگر دفعات شامل ہیں۔
ڈی آئی جی نے متعلقہ ایس پی کو حکم دے دیا ہے کہ واقعے میں شامل تمام مشکوک افراد کو گرفتار کرکے ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے۔ ترجمان پنجاب حکومت فیاض چوہان نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے شرمناک قرار دیا۔
متاثرہ عائشہ کے لیے عوامی حمایت
مینار پاکستان پر ہونے والے ہولناک کے بعد سیاسی شخصیات، شوبز ستاروں اور سماجی شخصیات نے عائشہ کو اپنی مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے۔
بلاول بھٹو کے مطابق مینار پاکستان پر ہجوم کی جانب سے نوجوان خاتون پر حملے نے تمام پاکستانیوں کو شرمندہ کردیا ہے۔ انہوں نے پوسٹ کیا ، “یہ واقعہ ہمارے معاشرے کی چھپی ہوئی گندی ذہنیت کا عکاس ہے۔”
The assault of a young women by a mob at #minarepakistan should shame every Pakistani. It speaks to a rot in our society. Those responsible must be brought to justice. The women of Pakistan feel insecure and it is all our responsibility to ensure safety and equal rights to all.
— BilawalBhuttoZardari (@BBhuttoZardari) August 18, 2021
شیریں مزاری نے مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ “ہمارے قانون کی کمزوری ہے جو ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں، ہمارے معاشرے کے کمزور افراد کی تذلیل ہے جو ان جرائم کا شکار ہوتے ہیں۔”
MoHR is in touch with Punjab authorities to ensure strict action ag perpetrators of the condemnable attack on a woman in Greater Iqbal Park Lahore. Arrests made, FIRs done. MoHR following up. But we need to try & change such violent behavioral patterns in our ppl. #lahoreincident
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) August 18, 2021
کہانی کا دوسرا رخ
جب کسی عورت کے خلاف ہراساں کرنے کے معاملے کی بات آتی ہے تو ، اس بات کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں کہ ایک عورت جس کے ساتھ ظلم ہوا ہے اسی کو موردالزام ٹھہرانا شروع کردیا جاتا ہے۔ عائشہ کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے جب اس نے واقعے کے بعد اپنی تازہ ترین ویڈیو جاری کی۔
اس واقعے کی تھوڑی دیر کی ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ عام انداز میں بات کررہی ہیں اور انہیں جیسے کوئی خوف نہیں ہے۔ انہوں نے صرف اپنی دوسری ویڈیو میں انصاف کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ میں پاکستان کی بیٹی ہوں۔
جلد ہی اس کی ویڈیو وائرل ہو گئی ، بہت سے لوگوں نے اس بارے میں سوالات اٹھانا شروع کر دیے کہ آیا وہ اصل میں ہراسگی کا شکار ہوئی ہے یا پھر اس سب کے اس کا ماسٹر مائنڈ کارفرما تھا۔
لوگ عائشہ پر کیوں الزام لگا رہے ہیں؟
حالیہ ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد بہت سے لوگوں نے عائشہ کو مینار پاکستان والے واقعے کا ذمے دار ٹھہرایا ہے ۔ اداکارہ صنم چوہدری نے ویڈیو میں کچھ چیزوں کی نشاندہی کی کہ متاثرہ (عائشہ) اب اپنی حالیہ ویڈیو میں متاثرہ دکھائی نہیں دے رہیں ہیں۔ ” میں یہ بات ہضم کرنے سے قاصر ہوں کہ اس کے پاس اس طرح کی ویڈیو بنانے کا وقت ہے۔”
میزبان متھیرا نے مس اکرم کے بارے میں بھی ایک رائے رکھی تھی جو انہوں نے صنم کی پوسٹ کے جواب میں شیئر کی تھی: “معذرت لیکن میں نے سوچا کہ وہی صدمہ اور دکھ اس کے چہرے پر بالکل نہیں دکھائے گئے یا شاید جو ہوا وہ سنجیدہ غلطی تھی لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس نے فیصلہ کیا ہے وہ اس بدقسمت واقعے کو کیش کرے۔”
مزید یہ کہ ، بہت سے سوشل میڈیا صارفین یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ ایک عورت جو ہجوم کے ہاتھوں ہراساں ہوئی ہے اور اس طرح کے افسوسناک تجربے سے گزری ہے اس کے پاس انٹرویوز دینے اور اپنا چہرہ ظاہر کرنے کا وقت کیسے ہے؟
https://twitter.com/Rak_KHr/status/1428031301861392386
بعد ازاں مینار پاکستان کے ایک گارڈ نے اپنے بیان میں انکشاف کیا ہے کہ کس طرح اس نے عائشہ کو فرار ہونے کا موقع فراہم کیا تھا مگر وہ وہی پر موجود رہی۔ اس کے ساتھیوں اور دیگر کچھ مردوں نے اس فرار کرانے کی کوشش کی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔
https://youtu.be/4WsDvD_A5VQ