استنبول حقیقی معنوں میں میٹرو پولیٹن ہے۔ یعنی وہ شہر جو کسی ملک کی اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہو۔
استنبول اتنا بڑا ہے کہ ہمارا سب سے بڑا شہر کراچی اس کے صرف ایک کونے میں سما جائے۔ ترکیہ کے اس سب سے بڑے شہر کا رقبہ تقریباً 5343 مربع کلومیٹر (2063 مربع میل) ہے۔ جنوب سے شمال تک کل فاصلہ تقریباً 150 کلومیٹر (93 میل) ہے۔ دو بر اعظموں میں پھیلے ہوئے اس شہر میں تین ایئر پورٹ ہیں۔ نیا ایئر پورٹ شمال میں اور پرانا جنوب میں ہے۔ دونوں کے مابین 83 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ جس سے آپ اس شہر کی وسعت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اکرم امام اوغلو اس عظیم الشان اور تاریخی شہر کے میئر ہیں۔ سیاسی طور پر وہ حزبِ عوامی جمہوری (CHP) کے رکن ہیں۔ یہ پارٹی ترکیہ کی ایک اہم اپوزیشن سیاسی جماعت ہے، جو سوشلسٹ اور سیکولر خیالات کی حامل ہے۔ امام اوغلو پارٹی کے ایک اہم رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں، جنہیں اب مختلف الزامات پر جیل کی سزا سنا دی گئی۔
واضح رہے کہ رجب طیب اردوان بھی استنبول کی میئرشپ کے بعد سیاست میں مقبول ہوئے اور پھر پورے ملک کے حکمراں بن گئے۔ گزشتہ دنوں امام اوغلو کی گرفتاری کے بعد ترکیہ کے سیاسی منظرنامے میں تناؤ کی کیفیت ہے۔ استنبول کے بعد اب بعض دیگر شہروں میں بھی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ بالخصوص اسٹوڈنٹس اس گرفتاری کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ پولیس نے کریک ڈائون کر کے سینکڑوں مظاہرین کو گرفتار کیا ہے۔ ہفتہ کی رات 343 مظاہرین حراست میں لے لیے گئے جبکہ اوغلو سے جڑے کیسز کی بنیاد پر بھی کئی افراد گرفتار ہیں۔
مسئلہ کیا ہے؟
استنبول کے پراسیکیوٹر کی جانب سے امام اوغلو کے خلاف مالی بدعنوانی اور دہشت گرد تنظیم سے تعلق کے الزامات میں دو الگ الگ تحقیقات شروع کی گئی ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ترک عدلیہ آزاد ہے، جو قانون کے مطابق عمل کر رہی ہے۔ اس لئے اس گرفتاری اور تحقیقات کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہئے۔ جبکہ اپوزیشن حکومت پر الزام عائد کرتی ہے کہ وہ امام اوغلو کو اقتدار سے باہر کرنے کے لیے عدلیہ کا استعمال کر رہی ہے، جنہیں ترک صدر رجب طیب اردوان کے اہم حریفوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اب تک ہونے والی تحقیقات کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں، وہ نہایت چشم کشا ہیں، جس پر سوالات اٹھ رہے ہیں کہ ان تحقیقات کا امام اوغلو اور ترکیا کے سیاسی نقشہ پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔
تحقیقات کیا ہیں؟
مقامی میڈیا کے مطابق امام اوغلو اور دیگر مشتبہ افراد سے تفتیش کا آغاز کیا جا چکا ہے۔ استنبول کے پراسیکیوٹر آفس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق تحقیقات استنبول میٹروپولیٹن میونسپلٹی میں مبینہ بدعنوانی کے نیٹ ورک پر مرکوز ہیں، استنبول بلدیہ پر الزام ہے کہ اس نے عوامی ٹینڈرز اور معاہدوں سے غیر قانونی فائدہ اٹھایا۔ اس کے علاوہ ایک علیحدہ تحقیقات ممکنہ طور پر حزب العمال کردستانی (PKK) سے تعلقات کی بابت بھی کی جا رہی ہے۔ پراسیکیوٹر کی تحقیقات کے مطابق، امام اوغلو پر 7 اہم الزامات عائد کیے گئے ہیں، جن میں مجرمانہ تنظیم کی قیادت، تنظیم میں رکنیت، فراڈ، رشوت، ذاتی ڈیٹا کا غیر قانونی حصول، ٹینڈر میں جعل سازی، اقربا پروری اور عوامی عہدے کا غلط استعمال شامل ہیں۔ پراسیکیوٹر نے اپنے الزامات کی بنیاد مختلف شواہد پر رکھی ہے، جن میں مالی دستاویزات، مشتبہ بینک ٹرانسفرز، ویڈیو ایویڈنس اور ڈیجیٹل مواد شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، بعض حکام کی گواہیاں بھی شامل ہیں جن سے اس کیس میں تفتیش کے دوران سوالات کیے گئے تھے۔
ٹرمپ انتظامیہ طالبان پر مہربان، سراج الدین حقانی کو مطلوب دہشت گردوں کی لسٹ سے نکال دیا
اس حوالے سے ذرائع نے بتایا ہے کہ بیلیک دوزو کے گرفتار میئر محمد مراد چالیک تحقیقات میں ایک اہم گواہ بن سکتے ہیں۔ چالیک نے چند ماہ قبل انقرہ میں امام اوغلو کے ساتھ مل کر بدعنوانی کرنے کا خود اعتراف کیا تھا اور اس حوالے سے امام اوغلو سے براہ راست ہدایات لینے کا دعویٰ کیا تھا۔ معلومات کے مطابق، استنبول میٹروپولیٹن میونسپلٹی کے اندر سے کچھ افراد نے اہم دستاویزات حکام کے حوالے کیں، جس کے نتیجے میں بشیکتاش کے میئر رضا اکبولات کو گرفتار کر لیا گیا اور انہوں نے تفتیش کاروں کے ساتھ تعاون کرنے کا فیصلہ کیا۔ اکبولات نے 40 صفحات پر مشتمل تفصیلی اعترافی بیان لکھا، جس میں پارٹی میں ہونے والی بدعنوانیوں کے بارے میں اہم معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
“نوٹوں کی گنتی کا اسکینڈل “
سب سے اہم پیشرفت جو تحقیقات کو تیز کرنے کا سبب بنی، وہ تقریبا ایک سال پہلے کی جاری ہونے والی ویڈیوز کا پھیلاؤ تھا، جن میں دکھایا گیا کہ استنبول میں حزبِ عوامی جمہوری کے دفتر میں موجود افراد سیاہ بیگوں سے بڑی رقوم نکال کر میزوں پر گن رہے ہیں۔ ان ویڈیوز سے سیاسی حلقوں میں بڑی ہلچل مچ گئی، جس کے نتیجے میں حکومت نے ان رقوم کے حوالے سے ایک وسیع تحقیقات شروع کی کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا اور کہاں جا رہا تھا؟ تحقیقات کے بعد پراسیکیوشن نے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ پیسے غیر قانونی طور پر بلدیہ استنبول کے ساتھ معاہدے کرنے والی کمپنیوں سے منتقلی کی صورت میں آئے تھے، جنہوں نے مشتبہ ٹینڈرز حاصل کیے تھے۔ تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا کہ استنبول کے علاقے “ایاغزا” میں 14 جائیدادیں دسمبر 2019ء میں حزبِ عوامی جمہوری کے لیے بیچی گئیں اور یہ تمام معاملات بلدیہ کی اہم شخصیات اور حزب سے جڑے ہوئے کاروباری افراد کے درمیان ہم آہنگی سے کیے گئے تھے۔ اس اسکینڈل کے بعد ہونے والی گرفتاریوں میں استنبول میٹروپولیٹن میونسپلٹی کے اہم ذمہ داران شامل تھے، جن میں امام اوغلو کی انتخابی مہم کے ڈائریکٹر نجاتی اوزکان، میونسپلٹی کے جنرل ڈائریکٹر جان آکن شاگلر، میونسپلٹی کے ثقافتی امور کے جنرل ڈائریکٹر مراد عباس اور کچھ کاروباری افراد اور ٹھیکیدار شامل ہیں جن پر پیسوں کی دھندلی اور رشوت کے معاملات میں ملوث ہونے کا شبہ ہے۔
دہشت گرد تنظیم سے تعلق؟
کرپشن کی تحقیقات کے علاوہ، امام اوغلو پر الگ الگ الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں جو ان کے حزبِ کارکنان کردستان (PKK) کے ساتھ تعلقات سے متعلق ہیں، یہ “شہری معاہدہ” کے حوالے سے ہیں، جو حالیہ مقامی انتخابات کے دوران حزبِ عوامی جمہوری (CHP) اور حزبِ عوامی جمہوری (HDP) کے درمیان طے پایا تھا (جسے حزبِ کارکنان کردستان سے قریبی تعلقات رکھنے والا سمجھا جاتا ہے)۔ پراسیکیوٹر کی تحقیقات کے مطابق، اس معاہدے کے تحت، حزبِ کارکنان کردستان سے تعلق رکھنے والے افراد کو حزبِ عوامی جمہوری کی فہرستوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے لیے امیدوار بنایا گیا، جس کے نتیجے میں انہیں بڑی بلدیات میں انتظامی عہدوں تک رسائی حاصل ہوئی۔ اس معاملے کی وجہ سے کئی مقامی بلدیاتی عہدے داران اور میئر کے نائبین کو گرفتار کیا گیا، جبکہ امام اوغلو کے ساتھ یہ تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ کیا انہوں نے ان فہرستوں کی منظوری دی اور کیا وہ ان امیدواروں کے حزبِ کارکنان کردستان سے ممکنہ تعلقات سے آگاہ تھے، جسے ترکیا میں دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
جانئے مدینہ منورہ کے چند سیاحتی مقامات کے بارے میں، تصویری تجزیہ
ان معلومات کے مطابق جو حکام نے حاصل کی ہیں، استنبول میٹروپولیٹن میونسپلٹی کے 10 اہلکاروں کے نام سامنے آئے ہیں، جن میں “اتاشہیر” اور “کارتال” کے نائب میئرز اور 8 بلدیاتی کونسل کے اراکین شامل ہیں، جو پیپلز ڈیموکریٹک کانگریس پارٹی کی ڈیٹا بیس میں موجود ہیں۔ تحقیقات نے ثابت کیا کہ ان میں سے کچھ افراد حزبِ کارکنان کردستان سے براہ راست جڑے ہوئے ہیں۔
تحقیقات کہاں تک پہنچ چکی ہیں؟
استنبول کے پراسیکیوٹر آفس نے امام اوغلو کی کنسٹرکشن کمپنی کو ضبط کرنے کا اعلان کیا ہے، جو جزوی طور پر اکرم امام اوغلو کی ملکیت ہے اور یہ ضبطی مالی جرائم کی تحقیقات کے حوالے سے ایک عدالتی فیصلے کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ تحقیقات کے مطابق “ایسٹکون” کمپنی، جو کاروباری شخصیت علی نوح اوغلو کی ملکیت ہے، جو امام اوغلو کے قریب سمجھا جاتا ہے، اس کمپنی نے استنبول میٹروپولیٹن میونسپلٹی کے زیر انتظام “کیپ تاش” کمپنی سے 2.1 ارب ترک لیرا (55.26 ملین ڈالر) کا ٹھیکہ حاصل کیا اور یہ ٹھیکہ 15 دن پہلے دیا گیا تھا جب امام اوغلو کو گرفتار کیا گیا تھا۔ مزید برآں، شواہد سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ 2 ملین ڈالر نقد رقم کو محمد غفران گل کی طرف سے نکلوایا گیا، جو پہلے “ایسٹکون” اور “نوح اوغلو کنسٹرکشن” کمپنیوں میں ڈرائیور کے طور پر کام کر چکا تھا۔ مالی دستاویزات سے پتہ چلا ہے کہ “امام اوغلو کنسٹرکشن” کمپنی غیر معقول مالی بہاؤ کا مرکز تھی، جن میں سے ایک معاہدہ 3 عالیشان ولاز کی خریداری تھا، جن کی مارکیٹ قیمت 50 ملین ڈالر تھی، لیکن یہ ولاز امام اوغلو کو صرف 15 ملین لیرا (394,736 ڈالر) میں بیچی گئیں۔ اس سے ان فنڈز کے ماخذ اور امام اوغلو اور ان کے شراکت داروں کے درمیان مالی تعلقات پر سوالات اٹھتے ہیں۔
تحقیقات نے “اے ٹی زیڈ انرجی” کمپنی سے مشتبہ مالی منتقلیوں کو بھی بے نقاب کیا ہے، جس نے 2019ء سے 2024ء تک استنبول میٹروپولیٹن میونسپلٹی سے اربوں لیرا کے ٹھیکے حاصل کیے تھے اور یہ رقم “غلوچہ فارمنگ” کمپنی کو منتقل کی گئی۔ یکم مارچ 2024ء کو، کمپنی کی سرمایہ کاری میں اچانک اضافہ ہوا، جب اس کا سرمایہ 50 ہزار لیرا (1,316 ڈالر) سے بڑھ کر 46.75 ملین لیرا (1.23 ملین ڈالر) ہو گیا اور یہ اس سے چند دن پہلے کی بات ہے جب اس کے پورے حصص “امام اوغلو کنسٹرکشن” کمپنی کو بیچ دیے گئے، جس میں امام اوغلو کا 60فیصد اور ان کے والد کا 40فیصد حصہ ہے۔ تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ استنبول میٹروپولیٹن میونسپلٹی میں ہونے والی مالی بدعنوانی کی مقدار 560 ارب ترک لیرا (14.74 ارب ڈالر) تک پہنچتی ہے، جہاں بلدیہ کی ماتحت کمپنیوں نے ٹینڈرز میں ہیرا پھیری اور مالی فراڈ جیسے جرائم میں حصہ لیا۔
دبئی جانے کے خواہشمند پہلے یہ معلومات ضرور پڑھیں، ورنہ پھنسنے کا خطرہ ہے
ایک اور کیس میں، جاری تحقیقات نے ایک دلچسپ معاملہ بے نقاب کیا ہے، جس میں “کاباسیٹی مال” تجارتی مرکز کے مالکان سے رشوت لینے کی کوشش کی گئی۔ یہ شہر کے مشہور شاپنگ مالز میں شامل ہے۔ مقامی پراسیکیوشن کی دستاویزات کے مطابق، استنبول میونسپلٹی کی بلدیاتی کونسل کی شراکت داری کمیٹی کے سربراہ ایتان یلدز اور ایک اور ملزم، سلیمان اتیک، نے تجارتی مرکز کی انتظامیہ سے 5 ملین یورو رشوت طلب کی تھی، تاکہ وہ مال کی عمارت کو زلزلہ پروف ہونے کی سند جاری کریں۔ جب تجارتی مرکز کی انتظامیہ نے رشوت کے مطالبات کو مسترد کیا، تو بلدیہ نے اس پر 197 ملین ترک لیرا (5.18 ملین ڈالر) کا بھاری جرمانہ عائد کیا۔ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سلیمان اتیک نے بلدیہ میں اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے مال مالکان پر دباؤ ڈالا اور انہیں ایک براہ راست دھمکی دیتے ہوئے کہا: “دو سال بعد، وہ شخص (امام اوغلو) جو صدر بنے گا، آپ کے سامنے ہوگا اور آپ نہیں چاہیں گے کہ اس کا سامنا کریں۔” واضح رہے کہ اپوزیشن امام اوغلو کو اگلا صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے لانا چاہتی ہے۔
اب کیا ہونے جا رہا ہے؟
سیاسی تجزیہ کار علی اسمر کے مطابق، امام اوغلو کے خلاف عائد الزامات ان کی سیاسی پوزیشن کو کمزور کر سکتے ہیں، جس سے ان کی ترکیا کی اپوزیشن سیاست میں سابقہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت پر اثر پڑے گا۔ اسمر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس صورتحال کے نتیجے میں اپوزیشن کی توجہ انقرہ کے میئر منصور یافاش کی طرف مڑ سکتی ہے، جو پچھلے انتخابات میں امام اوغلو کا سخت حریف تھا اور خاص طور پر قوم پرستوں کے درمیان بڑی مقبولیت رکھتا ہے۔ دوسری طرف، سیاسی تجزیہ کار مراد تورال کا کہنا ہے کہ موجودہ پیش رفت کو حزبِ عوامی جمہوری (CHP) کے اندرونی تنازعات کے تناظر میں بھی پڑھنا ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حزب کے بعض رہنماؤں کو امام اوغلو کا سیاسی منظر پر غلبہ پسند نہیں تھا۔ انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ انقرہ کے میئر منصور یافاش نے اس کیس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا “کوئی بھی قانون سے بالا نہیں، ہر شخص پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے اور اگر اس کی سزا ثابت ہو جائے تو اسے قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔” تورال نے پیش گوئی کی کہ حزبِ عوامی جمہوری اگلے اتوار کو صدارتی امیدوار کے لیے ابتدائی انتخابات کو اس طرح منعقد کرے گی کہ یہ غیر رسمی انتخابات ہوں گے اور امام اوغلو کی ذاتی موجودگی کی ضرورت نہیں ہوگی۔
مغربی میڈیا کا پروپیگنڈا
امام اوغلو کی گرفتاری کے بعد احتجاج ضرور ہو رہا ہے، مگر مغربی میڈیا اور اس کے زیر اثر پاکستانی میڈیا میں اسے جس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے، ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ میڈیا کی خباثت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ لاکھوں افراد کو سڑکوں پر دکھانے کے لیے انڈیا تک کی ویڈیوز کو استعمال کیا جا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ استنبول میں سب سے بڑا احتجاج بھی چھ سے سات ہزار افراد سے زیادہ کا نہیں ہوا ہے۔ اپوزیشن پارٹی کے صدر نے عوام کو گلیوں سڑکوں پر نکلنے کی کال دی، جو عمران خان کی کال کی طرح تاحال مس کال ہی ثابت ہوئی ہے۔ عدالت اس کیس پر استنبول کے بلدیاتی انتخابات سے قبل سے ہی کام کررہی تھی، لیکن ثبوت ناکافی ہونے کی وجہ سے گرفتاری کے وارنٹ جاری نہیں کئے گئے تھے اور اگر ناکافی ثبوت کی بنیاد پر حراست میں لے لیا جاتا تو عوام کا ردعمل شدید ہوسکتا تھا۔ اپوزیشن کو اس کا پتہ چل گیا تو میئر استنبول کو بچانے کے لیے الیکشن سے ساڑھے تین سال قبل ہی صدارتی امیدوار کا اعلان کردیا (عمومی طور پر یہ اعلان تین ماہ قبل کیا جاتا ہے) تاکہ عوام کو اکسایا جاسکے کہ حکومت یہ سیاسی کھیل رہی ہے (لیکن یہ منجن بھی خاص خریدا نہیں گیا)۔ کیوں؟ اس لیے کہ سب جانتے ہیں کہ میئر صاحب کے پاس اس وقت تقریباً ایک سو سات فلیٹس اور پانچ ویلاز ہیں اور ویلاز کی مالیت پچاس ملین ڈالرز بتائی جارہی ہے۔ اس کیس میں ثبوت باآسانی اپوزیشن جماعت کے اندر چپقلش کی وجہ سے جمع ہوئے اور کئی ناراض لوگوں اور اندر ہی موجود مخالف گروپس نے لالا کر جمع کروائے۔ مگر انٹرنیشنل میڈیا اور خصوصاً ان کے ٹٹ پنچھی پاکستانی میڈیا اس وقت صرف اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے یہ فیک خبریں چلا رہا ہے کہ ترکیہ میں حکومت کا تختہ الٹنے والا ہے، حالانکہ ایسا تو ابھی تک اپوزیشن لیڈر نے بھی دعویٰ نہیں کیا، بلکہ اس کے برعکس اردوان نے کھلا اعلان کیا ہے کہ اپوزیشن گلیوں میں نکلنے کا شوق پورا کرلے، لیکن یہ بند گلی ہے اور ایک جھوٹ اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اردوان اس پورے معاملے میں خوف کا شکار ہیں۔ جس شخص نے فتح اللہ گولن جیسے منظم اور بین الاقوامی مافیا کو تتر بتر کردیا، وہ ایسی صورتحال سے ڈر جائے گا؟