ایران میں بلوچ رہ نماؤں نے آئین پر ریفرنڈم کا مطالبہ کیا ہے۔
ایرانی اہلسنت کے مذہبی رہنما مولانا عبد الحمید نے ایرانی حکومت سے بین الاقوامی نگرانی میں عوامی ریفرنڈم کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
مولانا عبد الحمید نے زور دے کر کہا کہ “مظاہرین کو قتل، قید اور مار پیٹ سے خاموش نہیں کیا جا سکتا۔” بلوچستان سیستان کے دار العلوم زاہدان کے سربراہ اور ایرانی اہل سنت کے موثر رہنما مولانا عبد الحمید نے یہ بھی کہا کہ “جو لوگ 50 دنوں سے سڑکوں پر مظاہرے کر رہے ہیں، حکومت انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور نہیں کر سکے گی۔”
یہ بھی پڑھیں:
ایران نے بھارت کو تیل فراہم کرنے کیلئے حامی بھرلی
ادھر جمعہ کے روزجنوب مشرقی ایران کے صوبہ سیستان-بلوچستان میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔ یہ مظاہرے کئی ہفتوں کی ملک گیر بدامنی کے بعد تازہ واقعہ ہیں۔
انٹرنیٹ پر ریکارڈ شدہ کلپس کے ذریعے دکھائی گئی ویڈیوز کے مطابق لوگ ایک گورنری کی سڑکوں سے گزر رہے تھے، جن میں سے کچھ نے پس منظر میں گولیوں کی آواز کے درمیان پتھر پھینکے، پولیس نے ان پر آنسو گیس کے گولے برسائے۔ ویڈیوز میں کچھ مظاہرین کو زخمی حالت میں دکھایا گیا ہے۔
درایں اثنا ایران کی سرکاری ’ارنا‘ نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا کہ مظاہرین نے سیستان بلوچستان کے شہر خاش میں ایک پولیس اسٹیشن کو آگ لگا دی اور مقامی گورنر کے دفتر پر حملہ کیا۔
صوبہ سیستان بلوچستان، جس میں اہل سنت کی اکثریت ہے، ایران میں حکومت کے خلاف کئی ہفتوں سے مسلسل مظاہرے دیکھے جا رہے ہیں۔
30 ستمبر کو اس صوبے کے مرکزی شہر زاہدان میں مظاہروں کے دوران سکیورٹی فورسز کی مداخلت کے نتیجے میں درجنوں افراد مارے گئے تھے، جسے ’بلڈی فرائیڈے‘ کا نام دیا گیا تھا۔
16 ستمبر سے 22 سالہ مہسا امینی کی موت کے بعد پورے ایران میں مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔ مہسا کو ایران کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں گرفتار کیے جانے کے 3 دن بعد پولیس کی حراست میں قتل کردیا گیا تھا جس کے بعد ملک میں حکومت کے خلاف شدید غم وغصے کی لہر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔