ایرانی سپریم لیڈر کی دھمکیاں رائیگاں، طلبہ کے بعد ورکر بھی احتجاج میں شامل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ایران میں 16 ستمبر 2022 کو خاتون مہسا امیینی کی موت سے شروع ہونے والی احتجاجی تحریک تیسرے ہفتے میں بھی جاری ہے، ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای کی طرف سے سخت انتباہ بھی بے اثر ہوگیا، طلبہ کے بعد اب ملازمین بھی تحریک میں شامل ہوگئے ہیں۔

گرفتاریوں اور پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں اضافے کے باوجود ایران میں یونیورسٹی کے طلبہ نے احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔ طلبہ سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے والے افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔

ایران کے شمال مغرب میں واقع آذربائیجان صوبے کے دارالحکومت ان مظاہروں کو کچلنے کی کوشش میں سکیورٹی فورسز نے

تبریز یونیورسٹی کے طلبہ پر چڑھائی کردی اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ ایرانی سپریم نے الزام عائد کیا ہے کہ ایران میں کئی ہفتوں سے جاری احتجاجی مظاہروں کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل کا ہاتھ ہے۔

ایران میں تیل اور پیٹرو کیمیکل کے شعبے میں کام کرنے والے ورکر بھی ایران میں جاری تاریخی احتجاجی تحریک میں شامل ہوگئے ہیں۔ حزب اختلاف کی ویب سائٹ “ایران انٹرنیشنل” کے مطابق ان مزدوروں نے ہڑتال کر اعلان کردیا ہے۔

ٹھیکہ پر کام کرنے والے آئل ورکرز کے احتجاج کو منظم کرنے والی کونسل نے ٹیلی گرام پر بتایا کہ “دانا اسالویہ” پیٹرو کیمیکل کمپنی میں کام کرنے والے متعدد ورکرز نے ہڑتال شروع کر دی ہے۔

کارکنوں کی ہڑتال کی وجہ دو ماہ سے ان کی تنخواہوں کی عدم ادائی بتائی گئی۔ تاہم آئل ورکرز نے ایرانی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر گرفتاریاں، قتل عام، جبر اور خواتین کے ساتھ بدسلوکی کا سلسلہ ختم نہ ہوا تو ان کی احتجاجی ہڑتال ختم نہیں ہوگی۔

اس انتباہ کے بعد ایرانی تیل کی صنعت کے آپریشنل شعبوں میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین نے بھی عوامی احتجاج کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔

دوسری طرف ٹیچرز یونین کوآرڈینیشن کونسل نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں اساتذہ اور طلباء پر زور دیا گیا کہ وہ تمام مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں اور منگل کو سکولوں میں دھرنا دیں اور کلاسوں میں جانے سے گریز کریں۔

Related Posts