ایران اور سعودی عرب کے درمیان دوطرفہ تعلقات کئی جغرافیائی و سیاسی مسائل کی وجہ سے تناؤ کا شکار رہے ہیں تاہم مارچ 2023ء میں چین کی کئی ماہ کی کوششیں اور کاوشیں رنگ لائیں اور چین کی ثالثی میں ہونے والی بات چیت کے بعد ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات کی بحالی کا اعلان کیا گیا، یہ امر خطے کے بدلتے تناظر میں نہایت خوش آئند ہے۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی سے نہ صرف خطہ بلکہ دنیا کے دیگر کئی ممالک متاثر ہوتے رہے ہیں لیکن دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی نہ صرف اس خطے بلکہ امریکا کے علاوہ پوری دنیا کیلئے سود مند ثابت ہوگی۔
دونوں ممالک کی کشیدگی نے یمن، شام، عراق، لیبیا اور دیگر ممالک پر بھی شدید منفی اثرات چھوڑے ہیں کیونکہ جب فریقین مذہب کو خارجہ پالیسی میں ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیں تو اس کا انجام نقصان کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔
خطے میں نئے ابھرنے والے جغرافیائی منظر نامے کے دور رس اثرات ابھی سے نظر آنا شروع ہوسکتے ہیں اور ایران سعودیہ تعلقات کی بحالی صرف ان دونوں ممالک کیلئے نہیں بلکہ پاکستان، خلیج اور او آئی سی سے جڑے تمام ممالک کیلئے اطمینان کا باعث ہوگی۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی میں کمی اور تعلقات کی بحالی سے صرف اسرائیل اور امریکا ناخوش ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ سعودی عرب نے کچھ عرصہ قبل ہی اسرائیل کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دیدی تھی اس میں ایران پر حملے کی صورت میں بھی اجازت برقرار رکھنے کی شق موجود تھی۔
سعودی عرب اور ایران کے تعلقات بہت تیزی سے عروج پر پہنچنا شروع ہوگئے ہیں کہ حال ہی میں سوڈان سے ایرانی شہریوں کے انخلاء کے بعد سعودی عرب میں اعلیٰ عسکری حکام ایرانی شہریوں کے استقبال کیلئے موجود تھے۔
سعودی حکام کا پرجوش استقبال اور ایرانی شہریوں کو اپنے بہن بھائی قرار دینے سے پوری مسلم امہ میں ایک مثبت پیغام گیا ہے اور آگے بھی اسی جذبے کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ امت مسلمہ میں اتحاد مضبوط ہو اور او آئی سی کا 57 ممالک کا بلاک مسلمانوں کی حقیقی آواز بن سکے۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب 8 کے تحت قائم او آئی سی کو یورپی اور افریقی یونین کی طرح سلامتی کونسل میں اپنے معاملات کو لے کر جانے کے حقوق حاصل ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں مسلمانوں کی آپس کی رنجشوں کی وجہ سے یمن، شام اور دیگر ممالک میں سیکڑوں مسلمانوں کا مسلمانوں کے ہاتھوں بہت خون بہہ چکا ہے۔
اس صورتحال پر یہ اشعار ذہن میں آتے ہیں:
کفر کے فتووں نے توہین کے اعلانوں نے
طبل جنگ نے اور جبر کے زندانوں نے
انہی ملاؤں خلیفاؤں نے سلطانوں نے
کبھی رحمان کے پر جوش ثناء خوانوں نے
اور کبھی رحمت عالم ﷺ ترے دیوانوں نے
ساری دنیا نے بھی مل کر نہیں مارے ہوں گے
جتنے مارے ہیں مسلمان مسلمانوں نے
اب سے چند ماہ پہلے تک مسلمان آپس میں دست و گریباں اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نظر آتے تھے لیکن اللہ کے فضل و کرم سے اس وقت صورتحال بہتری کی جانب گامزن نظر آتی ہے اور امید کی جاسکتی ہے کہ اب ایک نئی راہ ہموار ہوگی اور کشیدگی کے بادل چھٹنے کی وجہ سے معاشی حالات میں بھی بہتری کے آثار نظر آئینگے۔
ہمیں ایک بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا کے بڑے ممالک کی معیشت میں ہتھیاروں کی فروخت کا بھی نمایاں کردار ہے اور جب تک جنگ و جدل اور حالات خراب نہ ہونگے تو ان ممالک کا اسلحہ کیسے فروخت ہوگا۔ اس لئے دنیا میں کشیدگی اور کشت و خون میں ہتھیاروں کی فروخت کا کردار بھی بہت اہم ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ امریکا، اسرائیل اور کچھ دوسرے ممالک کو شاید سعودی عرب اور ایران کی دوستی ایک آنکھ نہ بھائے ۔ اس لئے بڑی طاقتیں کشیدگی بڑھانے اوراپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کیلئے پس پردہ چال چل سکتی ہیں لیکن یہاں چین کا بے مثال کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی میں چین نے سب سے بڑا کردار ادا کیا اور ایران میں اگلے 25 سال میں چین 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جارہا ہے۔ ایران سے دفاع اور انٹیلی جنس شیئرنگ کا معاہدہ اور سعودی عرب میں چین کی سرمایہ کاری کے علاوہ باب المندب کے راستے افریقہ تک رسائی، سی پیک اور دیگر بڑے منصوبوں کو دیکھا جائے تو چیزوں کو سمجھنا آسان ہوجائے گا۔
اب اگر ہم پاکستان کی طرف دیکھیں تو ہماری معیشت مشکلات کے گرداب میں پھنس چکی ہے لیکن اس کے باوجود بدلتے حالات اور جغرافیائی تغیرات کی وجہ سے پاکستان کی اہمیت میں اضافہ ہوسکتا ہے جس سے پاکستان کے معاشی حالات میں سدھار کے امکانات بھی بڑھ سکتے ہیں۔
ہم اس سے پہلے بھی بارہا اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ امریکا کی خارجہ پالیسی میں چین کا بتدریج بڑھتے اثرو رسوخ کو کم کرنا بنیادی نکتہ ہے اور چین کی طاقت کو محدور کرنا امریکا کا اوّلین ہدف ہے تاکہ بطور سپر پاور امریکا کے مفادات کو محفوظ بنایا جاسکے تاہم زیادہ عرصے تک ایسا ممکن نہیں دکھائی دیتا۔
اب یہاں اہم بات یہ ہے کہ پاکستان امریکا سے عبوری (Transitional)اور چین سے دیرینہ تعلقات رکھتا ہے ۔ دنیا میں تیزی سے تبدیلیاں ہورہی ہیں، پیٹرو ڈالر کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے۔ مختلف ممالک اپنی کرنسی میں تجارت کررہے ہیں ، بھارت نے 15 سے زائد ممالک میں اپنے اکاؤنٹس کھول کر تجارت شروع کردی ہے۔
جیسے جیسے پیٹرول اور دیگر تجارتی امور ڈالر سے نکل کر دیگر کرنسیوں کی طرف راغب ہونگے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکا چین کو محدود کرنے کی کوششیں اور کاوشیں تیز کرسکتا ہے۔
حال ہی میں امریکا نے پہلی بار اوکاس نامی عسکری معاہدہ کیا جس میں امریکا کے علاوہ آسٹریلیا اور برطانیہ شامل ہیں اور اس دفاعی اتحاد میں آبدوزیں بھی ہیں جن کا مقصد چین کی رسد گاہوں پر نظر رکھنا ہے۔
چین 2010 سے سب سے بڑا تجارتی اور 2013ء سے دنیا کا سب سے بڑا مینوفیکچرنگ ملک بن چکا ہے اورسی پیک اور دوسرے منصوبوں کے ذریعے مستقبل پر نظر جمائے بیٹھا ہے ۔
اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے کے حل کیلئے بھی چین اپنی کاوشیں کررہا ہے۔ اس لئے یہ کہنا بعید ازقیاس نہیں کہ چین پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ تمام تر حالات اور صورتحال کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ چین اپنی بے بہا اور بتدریج ترقی کی بدولت چند سالوں میں امریکا کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے بڑا اور طاقتور ملک بن کر ابھرسکتا ہے۔