ایران کی بی آر آئی میں شمولیت

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ایران نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میں کئی کھرب ڈالر کا معاہدہ کرلیاہے، 2014 میں پاکستان نے بھی 45 ارب ڈالر کے چین پاکستان اقتصادی راہداری پر دستخط کیے تھے جو بی آر آئی کا حصہ تھا لیکن میگا پروجیکٹ رک گیا ہے اورایران کے ساتھ معاہدہ اس سے بھی بڑا ہے کیونکہ چین ایران کے ساتھ مستقل اور طویل مدتی اسٹریٹجک تعلقات کی تلاش میں ہے۔

چین کے ساتھ یہ مذاکرات پانچ سال قبل نہایت رازداری کے ساتھ شروع ہوئے تھے کیونکہ ایران کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

چین کے صدر شی جن پنگ نے 2016 میں ایران کا دورہ کیا تھا اور اگلی دہائی میں دو طرفہ تجارت کو دس گنا سے زیادہ بڑھا کر 600 ارب ڈالر کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ 25 سال پرانے اس معاہدے کی کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں لیکن اس میں توانائی ، بنیادی ڈھانچے اور فوجی تعاون میں سرمایہ کاری کو شامل کرنے کی توقع ہے۔

بی آر آئی میں مشرقی ایشیاء سے لے کر یورپ تک کی ترقی اور سرمایہ کاری کے اقدامات شامل ہیں،اس سے چینی معاشی اور سیاسی اثر و رسوخ میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ اس سے ریاستہائے متحدہ میں خدشات پیدا ہوگئے ہیں اور صدر بائیڈن نے بی آر آئی کامقابلہ کرنے کے لئے ایک منصوبہ تجویز کیا ہے۔

امریکا یقینی طور پر چین کو دنیا کا طاقتور ترین ملک بننے سے روکنے کی کوشش کرے گا۔ تاہم امریکی سامراج کے ساتھ تلخ تجربہ رکھنے والے ممالک محتاط ہیں۔ 100 سے زائد ممالک نے چین کے ساتھ 3اعشاریہ 7 ٹریلین ڈالر کی لاگت سے 2600 منصوبوں کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔

پاکستان میں صورتحال بالکل مختلف ہے کیونکہ متعدد منصوبے کورونا وائرس کی وجہ سے تعطل کا شکار ہیں کیوں کہ بہت سارے چینی انجینئر اور ٹیکنیشن واپس جانے پر مجبور ہوگئے تھے جبکہ سی پیک آرڈیننس ختم ہونے کے بعد بھی پاکستان سی پیک اتھارٹی کے بغیر رہا اور اسے تبدیل نہیں کیا گیا۔ کچھ منصوبے چھوٹے بھی کردیئے گئے ہیں کیونکہ وہ یا تو مہنگے ہیں یا قرض کے جال کے طور پر دیکھے جاتے ہیں ۔

پاکستان اور چین کا اصرار ہے کہ سی پیک منصوبہ درست سمت میں گامزن ہے اور جلد پایہ تکمیل کو پہنچ جائیگا لیکن چینی وزیر خارجہ کے ایران کے دورے کے دوران ایک تنازعہ کھڑا ہوا ہے جہاں انہوں نے کہا تھا کہ کچھ ممالک ایک فون کال پراپنے فیصلے تبدیل کردیتے ہیں۔ یہ بات پاکستان پر طنز کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے جو سی پیک منصوبوں پر تیزی سے عملدرآمد کے لئے حکمت عملی مرتب نہیں کرسکا ۔

بی آر آئی میں ایران کی شمولیت پر ملا جلا رد عمل متوقع ہے، مشرق کا رخ موڑنے سے ایران کو فائدہ ہوگا اور امریکہ تیزی سے معاندانہ رویہ اختیار کرے گا۔ اس سے پاکستان جیسے ممالک سمیت اس خطے کو بھی فائدہ ہو گا لیکن نقادوں کا کہنا ہے کہ چین کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے لئے ایران کو اپنی کوششوں میں بہت کچھ ترک کیا جاسکتا ہے اور اب ضروری ہے کہ پاکستان کو بھی سی پیک منصوبوں کی تکمیل کی کوششوں میں تیزی لانی چاہئے۔

Related Posts