ایران پر اسرائیلی حملے کا خدشہ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے حوالے سے گزشتہ 2 ماہ کے دوران5متعلقہ عالمی طاقتوں کے 8 اجلاسوں میں ہر بیٹھک کے بعد امن کی امیدیں مزید مدہم ہوتی جارہی ہیں۔طاقتورممالک کی جانب سے ایران کو مخاطب کرتے ہوئے تلخ بیانات کے خطرناک مضمرات پر نظر رکھنا ضروری ہے۔

حال ہی میں گزشتہ ماہ دو انتہائی اہمیت کی حامل شخصیات نے اسرائیل سے امریکا کا دورہ کیاجن میں اسرائیل کے وزیردفاع اور موساد کے سربراہ شامل تھے جنہوں نے واشنگٹن سے  مشاورت کے دوران ایران سے جوہری معاہدے کی واپسی کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا ۔

اسرائیل اور چند عالمی طاقتوں کا خیال ہے کہ سابق صدر ٹرمپ کی جانب سے معاہدہ ختم کرنے کے بعد ایران نے اپنی جوہری قوت کو کئی گنا بڑھالیا ہے اور اسرائیل کا خیال ہے کہ ایران اپنےمقصد کے حصول کی طرف تیزی سے گامزن ہے اور محض وقت حاصل کرنے کیلئے تاخیری حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔

اسرائیل کے وزیردفاع تو واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ ایران کے مسئلے کا صرف فوجی حل ممکن ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے اپنی فورسز کو تیاررکھا ہوا ہے۔تاہم 2015 میں جوہری معاہدے کی تکمیل کے بعد ایسا کرنا نسبتاً مشکل ہوچکا ہے چونکہ ایران کے پاس کافی جدید میزائل ٹیکنالوجی موجود ہےجس سےایران اسرائیل تک وار کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔اگر دیکھا جائے تو اوباما دور میں ایران کے پاس میزائل ٹیکنالوجی اس حد تک فعال نہیں تھی جس سے ایران اسرائیل تک وار کرنے میں کامیاب ہوتا تاہم گزشتہ دنوں ایران کے میزائل تجربات نے اسرائیل پر حملے کے خدشات کو بڑھادیا ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایران اپنی جوہری قوت کو مضبوط کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے جس کی وجہ سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عالمی قوتوں کا اصرار بھی بڑھتا جارہا ہے کہ ایران آئی اے ای اے ( انٹرنیشنل اٹامک انرجی اتھارٹی)کے انسپکٹرز کو معائنے کی اجازت دے کیونکہ عالمی طاقتوں کا ماننا ہے کہ ایران نے اپنی جوہری قوت میں اضافہ کیا ہےاور خاص طور پر خفیہ مقامات پر کام تیزی سے جاری ہے لیکن ایران کا مطالبہ ہے کہ جاری شدہ مذاکرات کے نتیجے میں پہلے ہمارے منجمد اثاثے بحال کئے جائیں، تیل کی ایکسپورٹ سے ہونیوالی آمدن واپس لانے کی پابندی ختم کی جائے اور گارنٹی دی جائے کہ آئندہ مذاکرات سے واک آؤٹ اور ایران پر پابندیاں عائد نہیں کی جائیں گی۔

چین اور روس کو چھوڑ کر باقی پی فائیو ممالک ایرا ن کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اسی پس منظر میں ٹرمپ کے دور حکومت میں معاہدہ معطل ہوا تو ایران اپنے اوپر سے قدغن ہٹنے سے اپنی جوہری قوت میں اضافہ کرتا رہا کیونکہ جب ایک فریق نے معاہدے سے روگردانی کرلی تو ایران کی طرف سے اپنی جوہری قوت کی طرف پیش قدمی قدرتی امر ہے ۔

ایران نے اسرائیل کی طرف سے حملے کے خطرات کو بھانپتے ہوئے اپنے خلیجی ودیگرممالک میں سلیپر سیلز کو مزید مربوط و مضبوط بنانا اور دوسری جانب یمن سے حوثیوں نے بھی اپنے حملوں کو مزید تیزکرنا شروع کردیا ہے اور3 دن قبل ابوظہبی میں حملہ اس کی ایک مثال ہے۔

دوسری جانب یوکرین اور امریکا کی رسہ کشی میں انتہائی گرما گرمی شروع ہوچکی ہے جس کو ایران اور تائیوان کے تناظر میں تولتے ہوئے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ایک جانب اگر یوکرین میں روس اور نیٹو فورسز کی جھڑپ شروع ہوتو دوسری جانب روس اور چین ایران کو ابھرتے ہوئے مخصوص صورتحال میں سپورٹ کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑیں گے۔

اس ضمن میں ایران کے صدر کا 3 روز قبل شروع ہونیوالا روس کا دورہ ایک کلیدی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔اس بات کا احتمال خارج ازامکان نہیں کہ اگر یوکرین میں روس اور نیٹو فورسز کے درمیان جھڑپ شروع ہو تو اسی دوران ایران اپنی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خلیجی ممالک اور یمن میں اپنی عسکری سرگرمیاں تیزکرتے ہوئے کچھ جھڑپیں شروع کردے کیونکہ ایران کے جنیوا میں جاری مذاکرات ناکامی کے بالکل قریب پہنچ چکے ہیں۔ایران کے اس قبل ازوقت حربی تدارک سے اسرائیل کے ممکنہ حملے کو روکنے میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔

پاکستان کی طرف سے اس بڑھتی ہوئی عالمی چپقلش میں اپنے مہروں کا درست استعمال ہی اسے خطرناک منفی اثرات سے بچاسکتا ہےاور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہماری وزارت خارجہ اور دیگر قیادت سرجوڑ کر بیٹھے تاکہ صحیح منصوبہ بندی کرتے ہوئے بین الاقوامی ڈپلومیٹک تناظر میں خود کو طرف داریوں سے بچایا جائے تاکہ اس خوفناک عالمی منظر نامے س ممکنہ نقصان کو کم سے کم یا اس سے مکمل طور پر بچنے کی کوشش کی جاسکے۔

Related Posts