اقراء یونیورسٹی میں بے حیائی کی تمام حدیں پار، بولڈ فیشن شو پر عوام برہم

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!
“Iqra University crosses all limits”, Karachi varsity faces backlash for organizing bold fashion show

کراچی کے معروف تعلیمی ادارے اقراء یونیورسٹی میں فیشن شو کے انعقاد کے بعد شہریوں کی جانب سے سخت تنقید کی جارہی ہے۔

یہ شو اقراء یونیورسٹی اور اکیڈمی آف انٹرنیشنل فیشن ڈیزائن کے اشتراک سے منعقد کیا گیا جس میں نوجوان ڈیزائنرز کے تخلیقی ملبوسات کو پیش کیا گیا۔ یہ ملبوسات ٹاپ ماڈلز اور فیشن آئیکونز نے ریمپ پر پیش کیے۔

تقریب میں مغربی طرز کے ملبوسات کی نمائش کی گئی جس کی وجہ سے سوشل میڈیا پر تنازع کھڑا ہو گیا۔ ایونٹ کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی، جس پر صارفین نے سخت اعتراض کیا اور ملبوسات کو اشتعال انگیز اور غیر مناسب قرار دیا۔

 

ناقدین نے خاص طور پر اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ یہ ایونٹ یونیورسٹی کے نام “اقراء” کے اسلامی تشخص سے متصادم ہے، جو قرآن پاک کی پہلی وحی کے طور پر اللہ تعالیٰ نے نازل کی۔

ایک صارف نے کہا، “اقراء، جو اللہ کی پہلی وحی ہے، اب بے حیائی سے منسوب ہو چکی ہے۔” ایک اور ناقد نے کہا، “اقراء نے تمام حدیں پار کر دیں۔” دیگر صارفین نے یونیورسٹی پر بے حیائی کو فروغ دینے کا الزام لگایا اور کہا کہ تخلیق کے نام پر ایسے فیشن، مقامی اقدار اور روایات سے متصادم ہیں۔ کچھ نے اسے مغربی رجحانات کی نقل قرار دیا، جس میں ثقافتی حساسیت یا جدت کا فقدان تھا۔

یہ ایونٹ اقراء یونیورسٹی کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ان الفاظ کے ساتھ تشہیر کیا گیا تھا: “یہ صرف ایک شو نہیں بلکہ وژن، ٹیلنٹ اور جدت کا جشن ہے۔ فیشن اوڈیسی یہاں ہے اور سفر شروع ہو چکا ہے ” تاہم، جیسے ہی ویڈیوز وائرل ہوئیں، عوامی جذبات یونیورسٹی کے خلاف ہو گئے اور کئی صارفین نے ملبوسات کی نامناسب نوعیت پر اعتراض کیا۔

دوسری جانب کچھ افراد نے اس ایونٹ کا دفاع کیا اور کہا کہ یہ نوجوان ڈیزائنرز کے لیے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے کا ایک قیمتی پلیٹ فارم ہے۔ حمایتیوں کا کہنا تھا کہ فیشن کو ایک آرٹ فارم کی طرح دیکھا جانا چاہیے، جو ثقافتی یا مذہبی حدود سے ماورا ہو۔ ان کے مطابق، اس طرح کے ایونٹ نے مقامی ڈیزائنرز کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار اور نئے افق کو چھونے کا موقع دیا۔

ناقدین کا اصرار ہے کہ یہ ایونٹ نہ صرف ادارے کی اقدار بلکہ پاکستان کی روایتی اقدار کے بھی خلاف ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ایک تعلیمی ادارے کو ایسے تخلیقی اظہار کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، خاص طور پر جب وہ اسلامی تعلیمات سے منسلک ہو؟۔

Related Posts