ایڈز کا عالمی دن اور لاعلاج مرض میں مبتلا انسانوں سے کیا جانے والا بدترین سلوک

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان سمیت دُنیا بھر میں آج ایڈز جیسی لاعلاج بیماری کا عالمی دن منایا جارہا ہے جس میں مبتلا انسانوں کو بعض اوقات غیر انسانی سلوک کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

لوگ ایڈز کے مریضوں سے بد ترین سلوک کیوں کرتے ہیں؟َ انہیں ایک عام مریض کیوں نہیں سمجھا جاتا اور ان سے میل جول میں کترانا ایک عام عادت کیوں بن گئی ہے؟ آئیے ان سب سوالوں کے جوابات اور ایڈز کے حوالے سے دیگر مختلف حقائق پر غور کرتے ہیں۔

عالمی دن اور اس کے مقاصد

پاکستان سمیت دُنیا بھر میں ہر سال یکم دسمبر کو ایڈز سے بچاؤ کا عالمی دن منانے کا مقصد جان لیوا مرض کے بارے میں عوام الناس میں شعور و آگہی کو فروغ دینا ہے۔

دنیا بھر میں سب سے پہلی بار ایڈز کا عالمی دن 1987ء میں منایا گیا۔ جو لوگ اس لاعلاج مرض کا شکار ہیں اور جو ان کے قریب بستے ہیں، انہیں ایڈز پر آگہی کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔

لاعلاج بیماری میں مبتلا دنیا بھر کے افراد

تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ایڈز پر گزشتہ 33 برس سے عالمی دن منایا جارہا ہے لیکن پھر بھی بیماری کی روک تھام میں کوئی خاص کامیابی نہیں ہوسکی، نہ ہی اسے ختم کرنے کیلئے کی جانے والی کوششیں زیادہ کارگر ثابت ہوسکیں۔

اقوامِ متحدہ کے ادارے عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دنیا کے 3 کروڑ سے زائد افراد ایچ آئی وی ایڈز کا شکار ہیں۔ جون 2020ء کے اختتام تک 2 کروڑ 60 لاکھ افراد ایڈز کے علاج کیلئے بطورِ خاص اینٹی ریٹرووائرل تھیراپی کا استعمال کرتے پائے گئے۔

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق سن 2019ء تک 3 کروڑ 80 لاکھ افراد ایچ آئی وی ایڈز کا شکار تھے اور اسی برس 17 لاکھ مزید انسانوں کے جسم میں ایچ آئی وی کی تصدیق ہوئی۔

ادارۂ صحت کے مطابق گزشتہ برس 6 لاکھ 90 ہزار افراد ایڈز کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار گئے، ان میں سے 8 لاکھ 0 سے 14 سال کے بچے تھے۔ 71 لاکھ افراد کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ انہیں ایڈز لاحق ہے۔ 

پاکستان میں ایڈز کے اعدادوشمار 

گزشتہ برس مئی کے دوران ایڈز کنٹرول پروگرام کا کہنا تھا کہ سندھ میں مجموعی طور پر 16 ہزار افراد میں ایچ آئی وی وائرس اور ایڈز کی تصدیق ہوئی۔ کراچی میں سب سے زیادہ ایچ آئی وی کیسز رپورٹ ہوئے۔

سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق 1996ء سے لے کر مارچ 2019ء تک کراچی میں ایڈز کے 78 مریضوں کی تصدیق ہوئی۔گزشتہ برس ایچ آئی وی وائرس کے 11 ہزار 282 مریض صرف کراچی میں موجود تھے۔

داتا کی نگری کی بات کریں تو گزشتہ برس جون میں لاہور میں ایچ آئی وی کے رجسٹرڈ مریض 1 ہزار 200 سے زائد تھے جن میں 200 خواتین تھیں۔ لاہور میں متاثرہ افراد میں سے 60 فیصد ایسے تھے جو سرنج سے نشہ کرتے ہوئے پائے گئے۔ پنجاب بھر میں گزشتہ برس ایچ آئی وی اور ایڈز کے مریض 13 ہزار 500 سے زائد تھے۔ 

مریض کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ 

یہ بڑی تکلیف دہ اور اذیت ناک بیماری ہے جس کا وائرس انسان کے مدافعتی نظام کو نشانہ بناتے ہوئے اسے تباہ کردیتا ہے۔ ایسے شخص کو کوئی بھی بیماری لگ جائے تو وہ خطرناک اور مہلک ثابت ہوتی ہے۔

جب انسان ایچ آئی وی کا شکار ہوجائے تو اس کے چند دن بعد 85 فیصد لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں انفیکشن کی علامات نظر آنے لگتی ہیں، ایسے لوگ بر وقت علاج سے مرض کو جان لیوا ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ 

ایڈز سے بچنے کیلئے کیا کیا جائے؟ 

یہ ایک ایسا مرض ہے جو ایک مرد سے عورت کو، عورت سے مرد کو اور مرد سے مرد کو جنسی تعلق کے باعث لگ سکتا ہے اور انتقالِ خون سے بھی، اگر خدانخواستہ ماں کو ایڈز تشخیص ہوا ہو تو وہی مرض بچے کو بھی ہوسکتا ہے۔

انتقالِ خون ایڈز پھیلانے کیلئے بد ترین طریقہ کار ہے جس نے سب سے زیادہ نقصان پاکستان میں کیا ہے۔ یہاں منشیات کے عادی افراد نشے کیلئے سرنجوں کا غلط استعمال کرتے ہیں اور ایڈز میں مبتلا ہو کر نشے اور زندگی دونوں سے آزاد ہوجاتے ہیں۔

اگر کوئی انسان ایڈز سے بچنا چاہے تو ازدواجی تعلقات کے علاوہ کسی سے ناجائز جنسی مراسم قائم نہ کرے اور انتقالِ خون سے قبل تمام تر ضروری ٹیسٹ کرائے جائیں تاکہ خون میں ایڈز یا ایچ آئی وی وائرس کی موجودگی کا علم ہوسکے۔ 

بڑی غلط فہمی 

ایک بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ ایڈز کے تقریباً تمام ہی مریض جنسی بے راہروی کا شکار یا پھر عزت و ناموس سے بے نیاز ہوتے ہیں جبکہ یہ بات سراسر غلط ہے۔

کیا اس بچے کے کردار پر کوئی انگلی بھی اٹھا سکتا ہے جو ابھی اپنی ماں کے بطن سے پیدا ہوا اور اس کے جسم میں ایچ آئی وی وائرس پایا گیا ہو؟ یا پھر اس ماں کو کوئی غلط کار ہونے کا طعنہ دے سکتا ہے جو اسلامی شریعت کے تحت نکاح کرکے اپنے شوہر کے ساتھ رہ رہی ہو اور ایڈز کا وائرس اسے شوہر سے لگ گیا ہو۔

ضروری نہیں کہ شوہر کو بھی ایچ آئی وی  بے راہروی اور ناجائز جنسی تعلق کے باعث تشخیص ہو کیونکہ ایچ آئی وی انتقالِ خون سے بھی تو لگ سکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص زندگی بچانے کیلئے کسی اور کو خون دے رہا ہو اور سرنج کا غلط استعمال اسے ایڈز سے قریب لے جائے۔ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ 

بے جا خوف اور غیر انسانی سلوک کا علاج 

پاکستان سمیت بعض دیگر ممالک میں بھی ایڈز کے مریضوں سے بے جا خوف پایا جاتا ہے۔ لوگ اسے چھوت کا مرض سمجھتے ہوئے ایڈز کے مریض کے سائے سے بھی ڈرتے ہیں۔ اسے کوئی گلے نہیں لگاتا اور مصافحہ کرتے ہوئے بھی خوف محسوس کیاجاتا ہے۔

شعوروآگہی ہی اس مصیبت کا واحد علاج ہے۔ جب تک خون کا انتقال یا کوئی جنسی تعلق نہ ہو، ایڈز کا وائرس ایک شخص سے دوسرے میں منتقل نہیں ہوتا۔ پھر بھی ایڈز کے مریض کو اپنے مرض کے ساتھ ساتھ اپنی بقاء کی جنگ معاشرے سے بھی لڑنی پڑتی ہے۔

بر وقت تشخیص سے ایڈز کا علاج بھی ممکن ہے تاہم ایچ آئی وی مریضوں سے بے جا نفرت اور ان کا سماجی مقاطعہ یعنی میل جول بالکل ختم کردینا انہیں موت کے قریب لے جاسکتا ہے۔ عوام کو چاہئے کہ ایڈز کے بارے میں معلومات حاصل کریں اور ان کے مطابق عمل بھی کریں تاکہ ایڈز کے مریضوں کو بے جا ناروا سلوک کا نشانہ نہ بننا پڑے۔ 

Related Posts