انصاف کے پردے میں ظلم

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

قانون کا موضوع بڑا پیچیدہ، مشکل اور خشک ہوا کرتا ہے جسے سمجھنا ہرکس و ناکس کے بس کا روگ نہیں تاہم جب لوگ قانون سیکھ کر وکیل یا جج بنتے ہیں تو ان سے سب سے اہم توقع جو وابستہ کرلی جاتی ہے وہ انصاف کی ہوتی ہے۔

تاہم قانون کی کتابیں وکلا یا ججز کو یہ نہیں سکھاتیں کہ انصاف کیسے کرنا ہے بلکہ یہ بھی سکھا دیتی ہیں کہ اپنے مؤکل یا من پسند درخواست گزار کو کسی مقدمے میں شک کا فائدہ دے یا دلوا کر بری کیسے کرنا ہے۔

کہتے ہیں قانون اندھا ہوتا ہے لیکن اس کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں۔ منطقی اعتبار سے کسی اندھے کے ہاتھ لمبے کردئیے جائیں تو وہ ہمیشہ اچھے لوگوں کو سزا دیا اور مجرموں کو چھوڑ دیا کرے گا اور دنیا کے کم و بیش ہر ملک میں قانون سب سے زیادہ یہی کام کررہا ہے۔

گزشتہ روز احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پلاٹ الاٹمنٹ کیس میں بریت کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی قانون کے مطابق نہیں تھی۔

تحریری فیصلے میں عدالت کا فرمانا تھا کہ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ نواز شریف کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ عدالت نے 3 بار منتخب ہونے والے سابق وزیرا عظم نواز شریف کو بری کرنے کا حکم جاری کردیا۔

یہاں بھی منطق کا سہارا لیا جائے تو کیا پہلے جو عدالتی فیصلہ نواز شریف کے خلاف کیا گیا تھا، وہ غلط تھا؟ یا یہ فیصلہ غلط ہے؟ ہو نہ ہو، دونوں میں سے کوئی ایک فیصلہ تو ضرور غلط ثابت ہوتا ہے۔ کم از کم قانون یہی کہتا ہے کہ یہ انصاف کے پردے میں ظلم ہے۔

کیا نواز شریف کے کیس پر فیصلہ کرتے ہوئے پہلے جج نے قانون نہیں پڑھا تھا یا پھر اسے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ناانصافی پر مبنی فیصلہ دیتے ہوئے روکنے والا ہی کوئی نہیں تھا؟ یا پھر اب جو فیصلہ ہوا ہے، وہ غلط ہے؟

بقول شاعر:

عدالتوں ہی سے انصاف سرخ رو ہے مگر

عدالتوں ہی میں انصاف ہار جاتا ہے

اس بات میں دو متضاد آراء سامنے نہیں آسکتیں کہ عدالت نے ماضی میں جو فیصلہ دیا اور جو اب سامنے آیا ہے، ان دونوں فیصلوں کا احترام کرنا چاہئے، لیکن یہ سوال پھر بھی اپنی جگہ قائم رہتا ہے کہ درست فیصلہ کون سا تھا؟

کیا ملک کا آئین و قانون بدلنا اور اپنی مرضی کے فیصلے کرنا اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ نظر آتا ہے یا پھر سیاستدانوں کے حق میں اور خلاف آنے والے فیصلوں کے پیچھے ڈوریاں ہلانے والے نادیدہ ہاتھ اپنا کرتب دکھا رہے ہیں؟

 

Related Posts