پاکستان میں مہنگائی مسلسل ریکارڈ قائم کررہی ہے ، توانائی کی سبسڈی منسوخ ہونے اور ایندھن پرعائد ٹیکس کے باعث گزشتہ تین مہینوں میں سی پی آئی میں مجموعی طور پر 13 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔
مالیاتی تجزیہ کاروں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ افراط زر کے انڈیکس میں اس پیمانے کا اضافہ عام طور پر 12 سے 18 ماہ کے عرصے میں دیکھا جاتا ہے۔ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اگست میں مہنگائی تقریباً 50 سال کی بلند ترین سطح 27.3 فیصد تک پہنچ گئی، جو کہ اپریل 1975 کے بعد اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں تیسرا تیز ترین اور اکتوبر 1973 کے بعد پانچواں تیز ترین اضافہ ہے۔
ملک کو بڑھتی ہوئی مہنگائی کا سامنا تھا ہی کہ حالیہ دنوں میں آنے والے سیلاب نے ملک کو مزید تباہ کردیا ، سیلاب نے ملک کو بہت بری طرح نقصان پہنچایا ، اس کے نتیجے میں کئی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہوگئی ہیں۔
اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ ماہ ٹرانسپورٹ 63 فیصد، خوراک 31 فیصد، رہائش اور استعمال کی اشیاء 27.6 فیصد، کپڑے اور جوتے 17.6 فیصد، تعلیم 10 فیصد اور صحت 11.8 فیصد مہنگی ہو گئی ہیں۔ اب جب کہ ملک میں سیلاب آگیا ہے تو ایسے میں اِن چیزوں کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔
سیلاب کے نتیجے میں معیشت اور عوام پر جو اثرات مرتب ہونگے وہ آئندہ آنے والے چند ہفتوں میں مزید واضح ہوجائینگے۔ آئی ایم ایف نے موجودہ مالی سال کے لیے اوسط مہنگائی 19.9 فیصد اور اسٹیٹ بینک نے خطے میں 18 اور 20 فیصد رہنے کی قیاس کی ہے جس میں مزید اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔
آئی ایم ایف سے قرض پروگرام کی منظوری کے بعد وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو چاہئیے کہ وہ ،ملک میں مہنگائی کو کم کرنے پر توجہ دیں جبکہ ایسا معلوم ہوا ہے کہ مسلم لیگ ن کی مخلوط حکومت عوام پر مہنگائی کا مزید بوجھ ڈالنے والی ہے۔
ایسا بتایا جارہا ہے کہ حکومت گیس کی قیمتوں میں 53 فیصدتک کا اضافہ کرنے والی ہے، جس سے یقینی طور پر ملک میں پہلے سے مہنگائی کی شکار عوام پر مزید بوجھ بڑھے گا اسی لئے حکومت کو اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کی فہرست میں سرکاری نرخوں کے مطابق فروخت کو یقینی بنانے کے لیے فوری ایکشن لینے کی ضرورت ہے، ورنہ حالات مزید خراب ہوتے رہیں گے۔