مہنگائی اور پاکستانی عوام

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ہم اس نبی ﷺ کی امت میں سے ھیں کہ جنہوں نے کاروبار بھی کیا تو صادق و امین کا لقب پایا۔ جن کی ایمانداری کے چرچے پورے عرب میں پھیلے ھوئے تھے ،جنکی سچائی کے دشمن بھی قائل تھے وہ اگر کوئی سامان بیچتے تو گیلا مال الگ اور سوکھا الگ رکھتے تاکہ گاہک کو کھرا سودا دیا جاسکے۔

انکی انہی صفات نے انہیں پورے عرب میں ممتاز بنادیا تھا۔ میں اپنے اس کالم میں چند واقعات پیش کروں گا کہ شاید کوئی ایک بھی شخص میرا یہ کالم پڑھ کر راہ راست پر آجائے تو اس ایک آدمی کی وجہ سے مجھ گنہگار کی بھی بخشش ھوجائےگی۔

سانول آج وقت سے تھوڑا پہلے آگیا اور حسب معمول مجھے سلام کیا کہ سرجی کیا حال ہے آپ کا گھر میں سب خیریت ہے۔ (سانول ایک عیسائی لڑکا تھا اور میرا ملازم تھا) اسکی یہ روٹین تھی کہ وہ روزانہ مجھے سلام کرتا اور پھر میرا اور میری فیملی کا حال احوال پوچھتا اس کے بعد کام پر لگ جاتا ۔انتہائی محنتی لڑکا تھا، اس نے آفس کی صفائی ستھرائی کام شروع کیا اور ساتھ ساتھ مجھ سے بھی بات کرنے لگا کہ سرجی آج سے میں تھوڑا جلدی آیا کروں گا اور آپ مجھے تھوڑا جلدی چھٹی دیجیے گا۔

میں نے کہا کہ سانول بھائی میں نے آپ کو پہلے کبھی منع کیا ہے جو اب کروں گا ؟۔بچے آپ کام ٹھیک کرتے ھو لہٰذا آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے آپ جب چاہیں جاسکتے ھیں۔ اس نے جواب دیا نہیں سر جی آپ کو بتانا ضروری ہے ۔سانول نے یہ کہا اور فرش پر وائپر لگانے لگا۔

میں نے کہا سانول ویسے خیریت تو ہے ناں آج جلدی کیوں جانا چاہتے ھیں ، اس نے کہا کہ سر جی آپ کو تو پتہ ہے آج 15 دسمبر ہے اور 25 دسمبر کو ھماری عید ہے تو اس کیلئے شاپنگ وغیرہ کرنی ہے۔ میں نے کہا پگلے ابھی تو دس دن پڑے ہیں اتنی کیا جلدی ہے تھوڑا عید کے قریب شاپنگ کرنا اس وقت شاپس پہ نیا مال ھوتا ہے۔

وہ کہنے لگا سرجی ھماری عید آپ سے ذرا مختلف ہے میں نے کہا کہ وہ کیسے کہنے لگا کہ جب دسمبر شروع ھوتا ہے تو ھماری کمیونٹی کے دکاندار چیزیں سستی کردیتے ھیں اور یہ سلسلہ عید کے دن تک رہتا ہے ہمیں یہ فکر نہیں ھوتی کہ مہنگا ھوجائے گا یا عید نزدیک دیکھ کر ریٹ بڑھا دیے جائیں گے۔

سانول کے یہ فقرے کچھ دن سے میرے دماغ میں گھوم رہے تھے کہ وہ عیسائی ھوکر کتنی پتے کی بات بتا گیا ہے۔ ان کا مہینہ شروع ھوتا ہے تو اشیاء کے ریٹس کم کردیے جاتے ھیں جبکہ ھم مسلمان جو اپنے آپ کو اشرف المخلوقات اور آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلیٰ ﷲ علیہ و آلہ وسلم کا امتی کہتے ھیں ھم تو بالکل گئے گزرے ھیں۔

ھمارے ہاں جب بھی کوئی ایونٹ یا تہوار آتا ہے تو ھم اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان تک پہنچا دیتے ھیں کیا ھم واقعی مسلمان ہیں یا بس نام کیساتھ مسلمانیت کا لیبل لگا ہے۔

لاک ڈاؤن لگنے سے پہلے مہنگائی کسی حد تک کنٹرول تھی لیکن جیسے لاک ڈاؤن لگا تو دکانداروں نے پچاس والی چیز 100 روپے کی کردی اور بھاؤ تاؤ اوپر سے کھانے لگے کہ بھئی لاک ڈاؤن ہے۔ روزوں سے پہلے اتفاق سے ایک ھوٹل پہ ٹھہرے جہاں کھانا پارسل میں دستیاب تھا۔

میرے ایک دوست نے ایک پلیٹ سالن پیک کرنے کیلئے کہا جب وہ شاپر میں پیک ھوگئی اور اسکی قیمت پوچھی تو اس نے 180 روپے بتائی حالانکہ عام حالات میں یہی سالن 80 سے 100 روپے میں دستیاب ھوتا تھا۔جیسے ہی رمضان شروع ھوا تو اشیائے خورودونوش کی قیمتیں بھی بڑھا دی گئیں۔

کھجور جو عام حالات میں 200 روپے کلو میں دستیاب تھی اسکی قیمت 320 روپے تک جاپہنچی ، اسی طرح لیموں 400 سے 600 روپے کلو ھوگیا چینی یکدم 78 روپے سے 90 روپے کلو ہوگئی۔

عمران خان کا ایک ہی مشن اور خواب تھا کہ غریب اور عام آدمی کی زندگی بہتر سے بہتر بنائی جائے لہٰذا اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ھوئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں واضح کمی کی گئی تاکہ مہنگائی کی شرح میں کمی آسکے لیکن اسکے باوجود اس کمی کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ سکے۔

اس حوالے سے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ایکشن لیتے ھوئے کابینہ کو کہا کہ اس کے ریلیف کے ثمرات عام آدمی تک پہنچائے جائیں اور انکی زندگی میں آسانیاں پیدا کی جائیں۔ اس وقت رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ چل رہا ہے جس میں مہنگائی عام دنوں کی نسبت عروج پر ہے شاید ھم بھول گئے۔

پچھلے دنوں اللہ وسایا جوکہ میرا محلے دار ہے اور انتہائی غریب آدمی ہے وسایا کی بڑی فیملی ہے اور گھر بھی کرائے کا ہے جسکی وجہ سے اسکے معاشی حالات اکثر خراب رہتے ھیں اور رہی سہی کسر اس لاک ڈاؤن نے پوری کردی۔ بیروزگار ھوگئے تھے کچھ دن تو حالات بہتر چلے لیکن پھر نوبت فاقوں کو پہنچنے لگی۔

اس دوران رمضان شروع ھوچکا تھا اس دوران کچھ مخیر حضرات کی جانب سے محلے میں راشن تقسیم ھوا جو کو بھی بھی وہ بہت خوش تھے کہ چلو کچھ دن گزر جائیں گے تب تک لاک ڈاؤن بھی ختم ھوجائے گا۔

پہلے دو تین روزوں پہ اللہ وسایا کے بچوں نے صبر کیا اور روزے سادگی سے ہی کھولے لیکن ہمسائے کے گھر سے مختلف کھانوں کے ذائقوں کی خوشبوؤں نے ان کے بچوں کے صبر کا پیمانہ لبریز کردیا۔

ایک دن ان کی چھوٹی بیٹی نے کہا بابا رمضان شریف میں سب فروٹس اور اچھے اچھے کھانے کھاتے ھیں لیکن ہمیں کبھی بھی نصیب نہیں ھوا ،بابا ھماری یہ غربت کب تک رہے گی۔ اللہ وسایا نے بیٹی کو دلاسے دیے کہ ﷲ پاک انشاءﷲ ہمیں بھی دے گا پھر آپ بھی پیٹ بھر کر کھانا اور من پسند کھانا۔ خیر بچوں نے ایک دو دن مزید صبر کیا۔

آج بچوں نے گھر میں بہت شور ڈالا کہ بابا آج ھم نے سحری بھی روکھی روٹی کھا کر کی ہے لہٰذا ہمیں ہر حال میں فروٹس وغیرہ لاکر دیں اور شام کی افطاری بھی اچھی بنوائیں۔

اللہ وسایابےبسی کے عالم میں گھر سے نکلا جیب خالی تھی لیکن بچوں کی بھوک اور خواہش کے آگے مجبور تھا۔ وہ ایک فروٹس والی ریڑھی پہ پہنچا اور مختلف فروٹس کے ریٹس پوچھے ان پھلوں کے دام اتنے زیادہ تھے کہ اللہ وسایابغیر کچھ کہے آگے چل دیا۔

وہ بیچارہ بےبسی اور لاچارگی کے عالم میں کبھی ایک ریڑھی پہ تو کبھی دوسری ریڑھی پر جاتا۔ یہ سلسلہ کافی دیر چلتا رہا دکاندار بھی تنگ پڑگئے کہ یہ آدمی لیتا کچھ نہیں بس دام پوچھتا ہے۔اس دوران افطاری کا وقت قریب آگیا ۔

اللہ وسایاخود بھی نڈھال ھوچکا تھا چنانچہ ایک جگہ بیٹھ گیا۔ لیکن تھوڑی دیر بعد بھوکے بچوں کے چہرے جیسے سامنے آئے فوراً اٹھا اور ہمت کرکے ایک ریڑھی والے کے پاس گیا جس کے پاس پہلے دو دفعہ جاچکا تھا۔

اس نے اللہ وسایا کو دیکھتے ہی جھڑکنا شروع کردیا کہ اب دوبارہ ریٹ پوچھنے آگئے ھو اللہ وسایا نے کہا کہ نہیں بلکہ کچھ اور پوچھنا ہے دکاندار پہلے ہی غصے تھا وہ مزید غصہ کرنے لگا کہ اب کیا پوچھنا ہے دکانداری کا ٹائم ہے لہٰذا میرا وقت برباد نہ کرو اور سائیڈ پہ ھوجاؤ۔

اللہ وسایا نے ہمت نہ ہاری اور کہا کہ کیا تمہارے پاس گلے سڑے پھل نہیں ہیں آپ اگر وہ پھل مجھے ادھار دیدو تو میں آپ کے پیسے لوٹا دوں گا۔ پھل فروش نے فوراً انکار کردیا اور دوبارہ ڈانٹنے لگا۔

اللہ وسایاکی ہمت جواب دے چکی تھی وہ ایک جگہ بیٹھ کر رونے لگے روزہ افطار ھوچکا تھا۔ خیر انہوں نے پانی پی کر روزہ افطار کیا اور بوجھل قدموں کیساتھ گھر چل پڑے۔ گھر گئے تو بچے ان کو خالی آتا دیکھ کر رونے لگے اور پھر سارے گھر والے ہی رونے لگے۔

اسی اثناء میں دورازے پر دستک ھوئی تو اللہ وسایانے آنسو صاف کیے اور دروازے پر گئے وہاں باہر جھانک کر دیکھا تو کوئی بھی نہیں تھا لیکن دروازے کے قریب ایک تازہ پھلوں کی ٹوکری پڑی تھی اور اس میں ایک بند لفافہ بھی پڑا تھا۔

اللہ وسایانے ادھر ادھر دیکھا کوئی بھی نہیں تھا کہ جن کا وہ شکریہ ادا کرتے لہٰذا انہوں نے ٹوکری اٹھائی اور گھر آگئے۔ پھل کھا کر جونہی انہوں نے لفافہ کھولا اس میں نقدی موجود تھی جوکہ اﷲ وسایا کےپورے ایک مہینے کا خرچ تھا ساتھ ہی ایک تحریر بھی ملی کہ بابا آج سے روز آپ کے گھر تازہ پھلوں کی ٹوکری آیا کرے گی اور ہر مہینے اسی طرح آپ کو راشن کے پیسے بھی مل جایا کریں گے۔

اس تحریر کے نیچے کسی کا نام یا پتہ درج نہیں تھا اﷲ وسایا اٹھا وضو کیا اور نماز پڑھنے لگا اور ساتھ ہی اس فرشتے کیلئے بھی دعائیں کرنے لگا جس نے اس مبارک مہینے میں بھوکوں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا اور ان کا احساس کیا۔ میں شاید اس واقعے کا ذکر اپنے کالم میں نہ کرتا لیکن سوچا کہ پتہ نہیں ان جیسے کتنے اﷲ وسایا اسی طرح غربت اور مہنگائی کا سامنا کرتے ھیں۔

مہنگائی اس قدر عروج پر ہے کہ عام اور سفید پوش آدمی کا گزارہ بہت مشکل ہے حکومت پاکستان مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں تاحال ناکام ہے لیکن وزیراعظم پاکستان اپنی ہر میٹنگ میں عام آدمی کی زندگی کے حوالے سے بات کرتے نظر آتے ھیں۔

آخر وہ کون ہے جو وزیراعظم عمران خان کے احکامات ھوا میں اڑا رہا ہے کیا انتظامیہ اس مصنوعی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے کوئی اقدامات اٹھائے گی یا یونہی غریب مہنگائی کی چکی میں پستا رہے گا۔

مخیر اور صاحب استطاعت لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ اس بابرکت مہینے میں غرباء پر دل کھول کر خرچ کریں رزق کم ھونے کی بجائے بڑھے گا۔ تبھی تو مولا علی نے فرمایا ہے کہ مجھے حیرت ہے کہ رزق سخاوت میں چھپا ہے اور لوگ اسے محنت میں تلاش کرتے ھیں۔

یقیناً آپ کے محلے میں اور اردگرد اﷲ وسایا جیسے بہت سے سفید پوش موجود ھوں گے جو اس وقت آپ کے صدقات اور خیرات کے اصل حقدار ہیں انکی سفید پوشی کا بھرم بھی نہ ٹوٹنے پائے اور انکی مدد بھی ھوجائے۔

بادشاہ سے فقیر اور فقیر سے بادشاہ بنتے دیر نہیں لگتی۔ الحمداللہ ہم مسلمان ہیں اور ھمارے قول و فعل میں کسی قسم کا تضاد ھونا چاہیئے یہ نہ ھو کہ جب بھی انسانیت دشمن کردار کا ذکر آئے تو غیر مسلم ھم مسلمانوں کی مثال دیں۔

ھمارے نبی صلیٰ ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اچھے اخلاق، ایمانداری اور بہترین حسن سلوک سے ان کو بھی گرویدہ کیا جو ان کو نبی نہیں مانتے تھے۔خداوند کریم ہمیں سیرت نبی صلیٰ ﷲ علیہ و آلہ وسلم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Related Posts