چینی صدر شی جن پنگ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے حال ہی میں برکس اقتصادی گروپ اجلاس کی سائیڈ لائن پر ملاقات کی جس کے متعلق 25اگست کو منعقدہ چینی وزارتِ خارجہ کی یومیہ پریس کانفرنس ہوئی۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ترجمان چینی دفتر خارجہ وانگ وین بین نے کہا کہ 23اگست کو برکس سربراہی اجلاس کے دوران چینی صدر مملکت نے بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات اور بات چیت کی اور فریقین نے چین بھارت تعلقات کے علاوہ باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال بھی کیا۔ چین نے زور دیا کہ تعلقات کی بہتری دونوں ممالک کے مشترکہ مفاد میں ہے۔ دنیا اور خطے کا امن و استحکام دونوں ممالک کی ترقی کیلئے مفید ہے۔
ترجمان دفترِ خارجہ کے مطابق چینی صدر شی جن پنگ نے کہا کہ فریقین سرحدی امور بہتر انداز سے حل کرسکتے ہیں اور سرحدی علاقے کے امن کو تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ چین اور بھارت کے مابین سرحدی امور پر چین کا مؤقف ہمیشہ کی طرح واضح ہے ۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ مل کر دونوں رہنماؤں کے احکامات پر عملدرآمد کیا جائے گا تاکہ دو طرفہ تعلقات کو صحت مندانہ طریقے سے آگے بڑھایا جاسکےاور سرحدوں پر موجود باہمی کشیدگی کم کی جاسکے۔
دونوں ممالک کے مابین چینی اور بھارتی دفاترِ خارجہ سے ملنے والی آگہی کے مطابق لائن آف ایکچؤل کنٹرول پر جو کشیدگی پائی جاتی ہے، اس میں کمی کیلئے باہمی طریقہ کار تلاش کرنے اور عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے جہاں بھارت کے 65 پیٹرولنگ پوائنٹس میں سے 26 پر 2020ء کے بعد سے اب تک چین کا قبضہ ہے جبکہ بھارتی فوج ان مقامات سے پیچھے ہٹ چکی ہے جبکہ دونوں ممالک میں لداخ کے معاملے پر تنازعہ کوئی نیا نہیں ہے جس کی جڑیں گزشتہ کئی برسوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین اسی معاملے پر جھڑپیں بھی ہوئیں جن میں سے جون 2020ء کا تنازعہ اہم ہے جس میں بھارت کے کئی درجن فوجی جبکہ 4 چینی فوجی ہلاک ہو گئے۔
دسمبر 2022ء میں بھی چینی اور بھارتی فورسز اروناچل پردیش کے توانگ سیکٹر میں آمنے سامنے آئیں جس کے دوران کوئی ہلاکت تو نہیں ہوئی تاہم دونوں جانب سے متعدد سپاہی زخمی ضرور ہوئے۔
اس وقت بھارت کے پاس 1 ہزار 905 لڑاکا جہاز ہیں جبکہ چین کے پاس 4 ہزار 630 ہیں۔ بھارت کے پاس 4 ہزار 614 ٹینکس ہیں جبکہ چین کے پاس 5 ہزار 250 ٹینکس موجود ہیں۔ بھارت کا دفاعی بجٹ 73اعشاریہ 6 جبکہ چین کا 261ارب ڈالر ہے۔ بھارت کے پاس 150 جبکہ چین کے پاس 350 جوہری وارہیڈز بھی موجود ہیں جس سے دونوں ممالک کی دفاعی و عسکری طاقت و صلاحیت کا ادراک کیا جاسکتا ہے۔ بھارت نے حال ہی میں مشن چندریان 3 کے ذریعے چاند پر اپنا پرچم لہرا دیا جبکہ چین دیگر ممالک سمیت پہلے ہی چاند تک رسائی حاصل کرچکا ہے۔ بھارتی مشن کی خاص بات یہ تھی کہ اس کیلئے معاشی وسائل کو کم سے کم استعمال کیا گیا جبکہ اگر بھارت معاشی سطح پر کامیابیاں حاصل کررہا ہے جسے خطے کی اہم طاقت بننے کیلئے سلامتی کونسل میں امریکا کی حمایت بھی حاصل ہے تو دوسری جانب چین پہلے سے ہی ویٹو پاور کا حامل ہے اور چین خطے کی ایسی ابھرتی ہوئی معاشی و عسکری طاقت ہے جس سے سپر پاور کہلانے والا امریکا بھی خائف نظر آتا ہے اوراس کے پر کترنے کیلئے ہر سطح پر تیاریاں کی جاتی ہیں۔
اگر ہم خطے میں کشیدگی کم کرنے کی بات کریں، جیسا کہ چینی صدر شی جن پنگ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے مابین ملاقات میں کی بھی گئی تو بھارت کو نہ صرف چین کے ساتھ بلکہ پاکستان کے ساتھ بھی اپنے دیرینہ مسائل اور تنازعات کو مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جنہیں وہاں کی سیاسی پارٹیاں، خاص طور پر موجودہ حکمراں سیاسی جماعت بی جے پی انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کیلئے نعروں کے طور پر استعمال کرتی اور بھارتی عوام کوبے وقوف بناتی ہیں۔
تشویشناک بات یہ ہے کہ بھارت عالمی سطح پر چین کے خلاف جاتے ہوئے امریکا سے ایسے کم از کم 5 معاہدے کرچکا ہے جن میں چین کی پیشرفت روکنے کا اقرار اور دیگر راز و نیاز کی باتیں مذکور ہیں جن میں جان بوجھ کر چین کا ذکر نام لے کر نہیں کیا گیا۔ معاہدوں کے تحت بھارت نہ صرف زمینی سطح پر بلکہ سمندری لحاظ سے انڈین پیسفک اوشن میں بھی چینی پیش قدمی روکنے کیلئے اقدامات کا پابند ہے۔ بھارت اسٹرنگ آف الائنس جبکہ پاکستان اسٹرنگ آف پرلز کا رکن ہے جن کی سربراہی بالترتیب امریکا اور چین کے پاس ہے ۔
امریکا کی بات کی جائے تو امریکا اس خطے سے کم از کم 12 ہزار کلومیٹر دور بیٹھ کر بھارت کے کاندھے پر بندوق رکھ کر چین کو نشانہ بنانے کی کوشش کررہا ہے اور بھارت اپنی چالاکی اور مکاری کے باعث امریکا سے حاصل شدہ طاقت کو پاکستان کے خلاف بھی استعمال کرنا چاہتا ہے جبکہ اگر بھارت اور امریکا کی مشترکہ جارحانہ پالیسیوں سے چین یا پاکستان میں سے کسی ایک ملک کوبھی خدانخواستہ نقصان پہنچتا ہے تو دوسرا خود بخود اس کی مدد کیلئے آگے آئے گا جس میں پاک چین دوستی کو اہمیت تو حاصل ہے ہی، تاہم دونوں ممالک کے مابین اسٹرٹیجک اور جیو پولیٹیکل بنیادوں پر آپس کے مفادات بھی ایک دوسرےسے منسلک ہیں جن سے مفر ممکن نہیں۔
بلاشبہ چینی صدر اور بھارتی وزیر اعظم کی ملاقات دونوں ممالک کے مابین اگر محاذ آرائی کم کرنے کا باعث بنتی تو اسے نتیجہ خیز کہا جاسکتا تھا، تاہم ایسا ہو نہیں سکا کیونکہ دونوں ممالک کی جانب سے مثبت پیغامات تو ضرور سامنے آئے، لیکن کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہوسکا جس سے پتہ چلتا ہے کہ دونو ں سربراہان کے مابین شخصی سطح پر کتنی ہم آہنگی تھی جو ملکی ہم آہنگی اور پھر آگے چل کر خطے کی صورتحال کو مثبت سمت میں گامزن کرنےکیلئے کار آمد ثابت ہوسکتی تھی۔ دو ممالک کے مابین ہم آہنگی اور دوستی نہ ہو تو اسے تخلیق کیا جاسکتا ہے لیکن اگر تصادم ہو تو پہلے باہمی تنازعات حل کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے جو تاحال بھارت کے چین اور پاکستان دونوں سے حل نہیں ہوسکے اور دیرینہ مسائل موجود ہیں۔
اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ چین اور بھارت کےسربراہانِ مملکت کے مابین ملاقاتیں عالمی سیاست اور خطے کی صورتحال کا تقاضا تو کہی جاسکتی ہیں تاہم دونوں ممالک جن جن عالمی معاہدوں کا حصہ بن چکے ہیں اور جس جس سمت میں دونوں کا سفر جاری ہے، اسے متوازی یا مماثل قرار نہیں دیا جاسکتا، نہ ہی دونوں ممالک کے مابین موجودہ دھیمی آنچ پر آہستہ آہستہ پکنے والی باہمی دشمنی مستقبل قریب میں اچانک دوستی میں تبدیل ہوسکتی ہے کیونکہ دونوں ہی ممالک کے مفادات ایک دوسرے سےمتصادم نظر آتے ہیں۔