اینٹی سمیٹزم جیسی صورتحال سے دوچار بھارتی مسلمان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بھارت میں ہونے والے جی 20 سربراہی اجلاس کے ایک اعلامیہ میں مذہبی منافرت کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ دہلی میں ہونے والے گروپ آف 20 کے سربراہی اجلاس کے اعلامیے میں مذہبی عقائد، اظہار رائے کی آزادی اور پر امن اجتماعات کے حق پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس ضمن میں ہر قسم کی عدم برداشت اور مذہبی عقائد کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک کی مخالفت کرتے ہیں۔ اعلامیہ میں لوگوں کے خلاف مذہبی منافرت کی کارروائیوں اور مقدس کتابوں اور علامات کے خلاف نفرت انگیز سرگرمیوں اور اقدامات کی بھی سخت مذمت کی گئی ہے۔
گروپ آف ٹوینٹی جسے شارٹ فارم میں جی 20 کے عنوان سے جانا جاتا ہے، دنیا کے معاشی طور پر 20 طاقتور ترین ممالک کا گروپ ہے۔ اسے دنیا کی معاشی صف بندی میں نہایت طاقتور گروپ تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اس گروپ میں شامل ممالک دنیا کی مجموعی پیداوار کا 80 فیصد کنٹرول کرتے ہیں اور اسی بنیاد پر عالمی سیاست کی بساط کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق ترتیب دیتے اور دنیا کے اہم فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں، چنانچہ اس گروپ کی سرگرمیاں بالخصوص اس کی سربراہ کانفرنس دنیا کےلئے اہم سمجھی جاتی ہے اور باقی کی دنیا ٹکٹکی باندھے جی 20 کے سربراہ اجلاس کے اسٹیج کی طرف متوجہ ہوکر اس بات کی منتظر رہتی ہے کہ دنیا کے یہ معاشی اور اقتصادی ”اکابر“ اب کیا فیصلہ کرنے والے ہیں۔ اس بار پہلی مرتبہ جی ٹوینٹی کا یہ اہم اجلاس بھارت کی میزبانی میں نئی دلی میں ہوا ہے۔ یہ اجلاس اس دفعہ ایسے وقت منعقد کیا گیا جب یوکرین کی جنگ کے باعث اس گروپ میں تقسیم کی فضا ہے۔ گروپ کی اکثریت مغربی ممالک اور ان کے اتحادیوں پر مشتمل ہے، اس لیے اس کے فیصلوں پر بھی وہی اثر انداز ہوتے ہیں اور اس طاقتور فورم کو اپنے مخصوص عالمی مفادات کیلئے استعمال کرنے سے باز نہیں آتے، یہی وجہ ہے کہ اس بار روس اور چین جیسے جی ٹوینٹی کے اہم ارکان نئی دلی میں ہونے والی سربراہ کانفرنس سے لا تعلق رہے اور بھارت کی تمام تر کوششوں کے باوجود اس میں شرکت پر آمادہ نہ ہوئے، جو بھارت کیلئے بطور خاص بڑی سبکی کی بات ہے۔
روس اور چین جیسے اہم ترین ممالک کے سربراہان کا جی 20 اجلاس میں شریک نہ ہونا اس گروپ کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے اور یہ واضح کرتا ہے کہ دنیا میں تقسیم ختم کرنے کیلئے تقسیم اور تفریق کے اسباب کو ختم کرنے پر توجہ دی جانی چاہیے، جب تک وہ پالیسیاں اور اقدامات ختم نہیں ہوں گے، جو تقسیم اور تفریق پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں، اس وقت تک دنیا میں مشترکہ ضروریات اور مقاصد کے حصول کیلئے انسانی بنیادوں پر باہمی تعاون کی فضا قائم نہیں ہوگی جو اس وقت وسائل معاش سے محروم دنیا کی بہت بڑی آبادی کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جی 20 خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، یہی پوری دنیا نہیں ہے، بلکہ دنیا جی ٹوینٹی سے بڑی ہے۔ اگر جی ٹوینٹی کے رہنما خود کو ہی پوری دنیا باور کرتے ہوئے فیصلے کرنے کی روش جاری رکھیں گے تو یہ باقی کی دنیا اور انسانیت کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ چین اور روس جیسے ممالک کی عدم شرکت جی ٹوینٹی کی ناکامی اور اس کی صف میں دراڑ کی طرف اشارہ ہے۔ گروپ کے رہنما اس پر مطمئن نہ ہوں کہ افریقی یونین کی شمولیت سے ان کے گروپ کی طاقت میں اضافہ ہوگا، افریقی یونین کی شمولیت کی اہمیت اپنی جگہ، مگر چین اور روس جیسے بہت بڑی انسانی آبادی کے حامل با اثر ملکوں کی اس گروپ سے دوری گروپ کے فیصلوں میں توازن کی کمی کا سبب بنے گا، جو دنیا کیلئے سیاسی اور معاشی طور پر نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ گروپ نے سعودی عرب کی تجویز پر مشرقِ وَسطِی، یورپ اور بھارت کے درمیان اقتصادی راہداری کے قیام پر اتفاق کیا ہے۔ اگر اس کے پس منظر میں سیاسی اغراض نہیں ہیں تو بلا شبہ یہ ایک اچھا منصوبہ ہے، تاہم یہ گروپ عالمی بساط پر جس طرح سیاسی پولرائزیشن میں ایک فریق کی صورت اختیار کر چکا ہے، اس سے خدشہ ہے کہ یہ ”پولیٹکل اکانومی“ کا مورچہ بن کر عالمی کھلاڑیوں میں سیاسی تقسیم کو مزید ہوا دینے کا سبب نہ بنے۔
اس معاشی منصوبے کو سیاست کیلئے استعمال کیا گیا تو اب تک متوازی عالمی طاقتوں کے درمیان غیر مرئی انداز میں جاری سرد جنگ کے نقوش واضح طور پر ابھر کر سامنے آسکتے ہیں، جس کا بہرحال نقصان ہوگا اور دنیا معاشی مفادات کی جنگ کا نیا میدان بن کر رہ جائے گی۔ جی ٹوینٹی کے اعلامیہ میں مذہبی منافرت کی مذمت یقینا ایک ایسا امر ہے جس کی تحسین پر کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ نے بھی اس کی تعریف کی ہے۔ بھارت کے دار الحکومت سے جی ٹوینٹی رہنماوں کی جانب سے مذہبی منافرت اور تفریق کی مذمت بہت ہی معنی خیز ہے اور بطور خاص قابل تحسین اقدام ہے۔ بھارت وہ ملک ہے جہاں اس وقت مذہبی بنیاد پر تفریق نہ صرف سوسائٹی میں نفوذ کر چکی ہے بلکہ بھارت کی مودی سرکار، بھارت کے تمام انتظامی ادارے، یہاں تک کہ تعلیمی ادارے اور عدالتیں بھی اس وبا کی لپیٹ میں ہیں اور وہاں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کوسرکاری اور ریاستی سطح پر اس بد ترین امتیازی سلوک کا سامنا ہے جس سے یہودیوں کو بچانے کیلئے مغرب نے اینٹی سمیٹزم (یہودیت دشمنی) کو انتہائی حساس معاملہ بنا رکھا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں مسلم اقلیت کو عین اسی بد ترین نا روا اور غیر انسانی سلوک کا سامنا ہے جس طرح کا سلوک اور رویہ نازی دور میں جرمنی میں بسنے والے یہودیوں کے ساتھ روا رکھا جاتا تھا۔ یہ بات ہم بھارت دشمنی میں یا پھر مسلمان ہونے کے ناتے کسی تعصب کے تحت نہیں کر رہے، خود بھارت کی انٹیلی جنشیا اور دانشور طبقہ نہ صرف اس بات کو محسوس کر رہا ہے بلکہ کھل کر اس کی نشاندہی بھی کرنے لگا ہے۔ کچھ دن قبل یوٹیوب پر طویل صحافتی پس منظر رکھنے والے دو اعلیٰ بھارتی تجزیہ کاروں کی گفتگو سننے کا موقع ملا۔ ان کا اتفاق تھا کہ بھارت میں ہندتوا شدت پسندی کا عفریت اس شدت سے بے لگام ہوگیا ہے کہ وہ اس نے مسلمانوں کا جینا محال کر دیا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ہندوتوا کے زیر اثر تمام بھارتی ادارے وہی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں جو نازی جرمنی میں یہودیوں کے ساتھ عام تھا۔
بلا شبہ اقلیتیں خواہ مذہبی ہوں یا نسلی اور لسانی، انسانیت کے ناتے کسی سے بھی امتیازی سلوک روا رکھنا انسانیت کے منافی اور بڑے پیمانے پر فساد اور خرابیوں کو جنم دینے والا رویہ ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں بھی تشدد اور ظلم و زیادتی کے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جو مذہبی اور نسلی امتیاز سے وابستہ کیے جاسکتے ہیں، تاہم قابل اطمینان امر یہ ہے کہ ایسے تمام واقعات کی نہ صرف دین اسلام کی تعلیمات سے تائید نہیں ہوتی، بلکہ معاشرے کی اجتماعی دانش بھی انہیں سختی سے رد کر دیتا ہے، جبکہ سرکاری سطح پر ان کی تائید کا تصور بھی نہیں ہے۔ اس کے بر عکس بھارت میں حالات بہت ابتر ہیں، وہاں اقلیتوں کیلئے عملاً سانس لینا ہی دشوار ہو چکا ہے۔ دوسری طرف انہی بنیادوں پر مغرب کا لے پالک اسرائیل کھلم کھلا فلسطینیوں کو مسلسل ظلم و ستم کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ جی ٹوینٹی کا اعلامیہ خوش آئند ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کے یہ طاقتور ممالک اس اعلامیے پر عمل در آمد کیلئے بھی کوئی میکینزم اور ضابطہ اخلاق جاری کریں، محض اعلامیوں سے یہ مسائل حل نہیں ہوں گے۔

Related Posts