ہندوستان کے عظیم فلم ساز ستیہ جیت رے کی آج 100ویں سالگرہ منائی جارہی ہے

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!
ہندوستان کے عظیم فلم ساز ستیہ جیت رے کی آج 100ویں سالگرہ منائی جارہی ہے
ہندوستان کے عظیم فلم ساز ستیہ جیت رے کی آج 100ویں سالگرہ منائی جارہی ہے

ممبئی: 1955 سے فلمی سفر کا آغاز کرنے والے بھارت کے بہترین ہدایت کار اور فلم ساز ستیہ جیت رے کا آج 100واں یوم پیدائش منایا جارہا ہے۔

ہندوستانی فلم ماسٹر ستیہ جیت رے نے اپنی وفات سے چند روزقبل 1992 میں آسکر ایوارڈ کا اعزاز اپنےنام کیاتھا۔ بین الاقوامی سطح پر انڈیا کے سب سےمشہور فلمساز کی آج سالگرہ منائی جارہی ہے۔

رے نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز 1955 میں اپنی فلم ” پتھر پنچالی ” سے کیا تھا۔ جسے کینز فلم فیسٹیول میں بہترین انسانی دستاویزی فلم قرار دیا تھا۔ ان کی دوسری فلم “اپارا  جیتو” 1956 اور تیسری فلم “اپور سنسار” 1959 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔

ستیہ جیت رے کی فلموں “پاتھر پنچالی ،” “اپارجیتو ،” “مہا نگر” (1963) ، “چارولاٹا” (1964) ، “نائک” (1966) اور “اشانی سنکیت” (1973) نے برلن کے فلمی میلے میں متعدد اعزازات حاصل کیے تھے۔

وینس فلم فیسٹیول میں “اپارجیتو” اور “سیمباددہ”  نے (1971) میں گولڈن لائن کا ایوارڈ  حاصل کیا تھا۔ انہوں نے 1983 میں ایک برطانوی انسٹی ٹیوٹ کی فیلوشپ بھی حاصل کی تھی۔ 1987 میں  فرانس کی حکومت نے انہیں لیجن آف آنر کے اعزاز سے نوازا تھا۔

ہندوستان میں رے کی فلموں نے 36 مرتبہ قومی فلم ایوارڈز  جیتےتھے۔ ستیہ جیت رے کو بالترتیب داداصاحب پھالکے ایوارڈ اور ہندوستان رتن سے بھی نوازا گیا تھا، جو ملک کا اعلی ترین فلم اور سویلین ایوارڈ ہے۔

ہندوستانی حکومت نے ستیہ جیت  رے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ برائے سنیما کے نام سے نیا ایوارڈ شروع کیا ہے۔ جبکہ ملک کے مختلف فلمی ادارے سال بھر کی صد سالہ تقریبات کا اہتمام کر رہے ہیں۔

ستیہ جیت رے 2 مئی 1921 میں کلکتہ میں ایک تخلیقی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے اشتہارات میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ ان کے دادا اور والد بہت ہنر مند آدمی تھے جن کی دلچسپی کا سلسلہ سینما سے بھی آگے تھا۔

ایک نوجوان رے ہالی ووڈ کی فلمیں دیکھ کر بڑا ہوا تھا، لہذا جب ان کی اشتہاری ایجنسی نے انہیں اعلی تربیت کے لیے لندن بھیجا تو انہوں نے اپنا زیادہ تروقت فلموں کی کمپنی میں صرف کیا اور ان کی اشتہارات بنانے میں دلچسپی ختم ہوگئی۔

اس سفر کے دوران ستیہ جیت رے نے 1984 میں وٹٹوریو ڈی سکا کی فلم “بائیسکل چور” دیکھی ، جو جنگ کے بعد مایوسی کے شکار ایک نوجوان کی حقیقی زندگی سے بہت قریب کہانی تھی۔

ستیہ جیت رے جب کلکتہ واپس پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ فرانس کے عظیم فلم ساز جین رینوئر ہندوستان میں آئے ہیں اور وہ ہندوستان میں فلم بنانے کا ارادہ رکتھے ہیں۔ ستیہ جیت رے نے فرانسیسی فلم ساز کے ساتھ ملاقات جنہوں نے ستیہ جیت رے کو فلم بنانے کا مشورہ دیا۔

”پتھر پنچلی“ کی کامیابی کے بعد انہوں نے کبھی مڑ کے نہیں دیکھا اور کم و بیش چالیس سال تک فلمی صنعت کے بے تاج بادشاہ رہے۔ انہوں نے ان سالوں میں چھتیس 36 فیچر اور دستاویزی فلمیں بنائیں۔ حقیقی زندگی پہ بنیاد رکھی جانے والی فلموں میں محض دکھ اور المیہ ہی نہیں خوشیاں اور طنز و مزاح بھی ہے۔

Related Posts