نئی دہلی: بھارتی کسانوں کا احتجاج رنگ لے آیا، مودی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ زراعت کے شعبے پر نافذ کیے جانے والے متنازعہ قوانین واپس لے لیے جائیں گے جس پر کسان برادری خوش نظر آتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعے کے روز بھارتی قوم سے خطاب میں کہا کہ آج ہم وہ تینوں زرعی قوانین واپس کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں جس پر کارروائی رواں ماہ مکمل کی جائے گی کیونکہ کسان قوانین سے مطمئن نہیں۔
دنیا بھر میں لیٹرین اور مردوں کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے
چین دنیا کا امیر ترین ملک قرار، امریکا بھی پیچھے رہ گیا
بھارتی صوبہ پنجاب، اتر پردیش اور ہریانہ میں کسان برادری گزشتہ 1سال سے متنازعہ قوانین پر سراپا احتجاج ہے۔بھارتی شہریوں سے خطاب میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ رواں ماہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں زرعی قوانین واپس لیے جائیں گے۔
خطاب کے دوران بھارتی وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت چھوٹے کسانوں کو مضبوط کرنا چاہتی ہے، تاہم کسان قوانین پر اطمینان نہیں رکھتے، ہم نے قوانین ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تاہم جب قوانین کی منظوری دی گئی تو کسانوں کی کئی تنظیمیں خیر مقدم کرتی نظر آئیں۔
کسانوں کا احتجاج:
سن 2020 کی مردم شماری کے مطابق 1 ارب 38 کروڑ نفوس پر مشتمل بھارت میں نومبر 2020 سے ہزاروں کسان کیمپ لگائے سراپا احتجاج ہیں، اکثر کسانوں کا تعلق بھارتی پنجاب سے ہے جنہیں کنٹرول کرنا مودی حکومت کیلئے بڑا چیلنج ثابت ہوا۔
ملک کی آبادی کا کم و بیش 66 فیصد حصہ زراعت اور کھیتی باڑی پر انحصار کرتا ہے جسے مودی حکومت کی طرف سے متنازعہ قوانین کا سامنا رہا۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ متنازعہ قوانین سے خدشہ تھا کہ ہمیں بڑی کمپنیوں کے رحم کرم پر رہنا ہوگا۔
نریندر مودی حکومت کے متنازعہ قوانین کے خلاف کسانوں کا مظاہرہ رواں برس کے آغاز میں ہی پرتشدد صورت اختیار کر گیا تھا۔ اب تک مظاہروں میں ایک درجن کے قریب بھارتی کسان ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوچکے ہیں اور مودی حکومت کو ہوش نومبر میں آیا۔