ٹیکسوں کے بوجھ میں اضافہ

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ ٹیکسوں میں بڑے پیمانے پر 1اعشاریہ 22 کھرب روپے کا اضافہ کرنے کا وعدہ کیا ہے جو جی ڈی پی کا تقریباً 1.28 فیصد ہے حکومت بیل آؤٹ پروگرام میں رہنے کے لئے چھ ماہ میں ایک درجن شرائط کو پورا کرے گی جس سے عوام پر بوجھ بڑھ جائیگا۔

حکومت بجلی کے نرخوں میں فی یونٹ 5اعشاریہ 65 روپے کا اضافہ کرنے کے درپہ ہے جو صارفین پر 884 ارب روپے کا بوجھ ڈالے گا۔ اس کے علاوہ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت جون میں تقریباً600 ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کرے گی، آئندہ بجٹ سے پہلے ان تبدیلیوں کو رواں مالی سال کے باقی تین ماہ کے اندر لاگو کیا جائے گا۔

حکومت نے اپنے دور میں چھٹا ایف بی آر کا نیا چیئرمین مقرر کیا ہے اور نئے چیئرمین کوانکم اور سیلز ٹیکس میں اضافہ اور چھوٹ واپس لے کر 6 کھرب روپے کا ہدف دیا گیا ہے۔ اس سے تنخواہ دار طبقے اور صارفین کے سامان کی قیمت پر بوجھ بڑھ جائے گا۔ جولائی سے ہم کھانے پینے کی اشیاء ، دوائیں ، لائیواسٹاک، تعلیم اور صحت سے متعلق سامان کی قیمتوں میں اضافہ دیکھیں گے۔

حکومت نے 450 ارب روپے کا پیٹرولیم لیوی ہدف مقرر کیا لیکن آئی ایم ایف نے اسے 511 ارب روپے کرنے کی پیش گوئی کی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آنے والے مہینوں میں پٹرول کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگااور ترقیاتی منصوبوں پر اخراجات کم ہوں گے۔ ٹیکس کی وصولی کا نصف حصہ قرض کی خدمت میں چلا جائے گا اور اس سے پیداواری مواقع بہت کم رہیں گے۔حکومت مسلسل تیسرے سال اپنے ٹیکس وصولی کے ہدف کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے جبکہ غیر ملکی قرضوں میں اضافہ ہوتا رہا ہے ۔

 آئی ایم ایف نے معیشت کی تشویشنال تصویر پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سال بے روزگاری اور افراط زر میں اضافہ ہوگا۔

شرح نمو صرف 1اعشاریہ 5 فیصد تک رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے جو حکومت کی اپنی 2اعشاریہ 1 فیصد کی پیش گوئی سے بھی کم ہے۔ یقیناً آگے بہت سارے چیلنجز درپیش ہوں گے کیونکہ حکومت معیشت کو پٹری پر لانے کی کوشش کررہی ہے۔

وزیر اعظم ایک نئی معاشی ٹیم لے کر آئے ہیں لیکن اس مسئلے کے حل کا امکان نہیں ہے،زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستان کیپٹل مارکیٹوں میں داخل ہوگیا ہے تاہم اشیائے خوردونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور مہنگائی کے ساتھ یہ مسئلہ برقرار ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں سے کبھی ترقی نہیں ہوسکتی ہے وہ صرف نئے مسائل پیدا کردیں گے جو ہم آنے والے مہینوں میں دیکھیں گے۔

Related Posts