شہر قائد میں جرائم کی وارداتوں میں خطرناک حد تک اضافے کے بعد پولیس نے کراچی میں اسٹریٹ کرائمز میں اضافے کو روکنے کے لیے ایک اور علیحدہ اسکواڈ ”شاہین فورس” کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔ کراچی پولیس کے سربراہ جاوید عالم اوڈھو نے کہا ہے کہ شاہین فورس 200 کے قریب پولیس اہلکاروں پر مشتمل ہوگی جن میں ماہر نشانہ باز بھی شامل ہیں۔
سی پی ایل سی کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق کراچی میں رواں سال کے دوران اسٹریٹ کرائم کے 56,500 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ شہریوں سے 19 ہزار سے زائد موبائل فون چھین لیے گئے، 104 کاریں زبردستی چھین لی گئیں اور 1383 موٹر سائیکلیں چوری کی گئیں۔
سندھ پولیس اور دیگر صوبائی انتظامیہ نے ماضی میں جرائم کے ایک علاقے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے خصوصی یونٹس یا فورسز قائم کیں، پھر بھی، جیسا کہ آج کراچی پہلے سے زیادہ خطرناک دکھائی دے رہا ہے، اور حالات مزید بگڑتے جارہے ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال اسٹریٹ کرائم کے واقعات میں کم از کم 16 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کراچی میں اسٹریٹ کرائمز میں اضافے کی وجہ ملک کی موجودہ مالی صورتحال کو قرار دیا ہے۔ یہ ایک ناقابل قبول عذر ہے، جو اس بات کی وضاحت نہیں کرتا کہ کیوں کراچی ہی کو جرائم کی بے لگام شرح کا سامنا کرنا پڑتا ہے نہ کہ دوسرے شہروں جو کہ کراچی کے مقابلے میں معاشی انفراسٹرکچر کی کمی کی وجہ سے بدتر مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسٹریٹ کرمنلز کے گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
یہ نئی فورس ایک اچھا قدم ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس نے کم از کم بڑھتے ہوئے جرائم کے بارے میں خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی ہے، تاہم، سندھ حکومت کو یہ ظاہر کرنے کے لیے مزید کچھ کرنا چاہیے کہ یہ فورس جرائم کو کیسے کم کرے گی جب کہ دوسرے نہیں کر سکتے۔ فی الحال، یہ اقدام ایک کمزور ردعمل دکھائی دیتا ہے، بہت سے پولیس اہلکاروں کے پاس پہلے سے ہی وہ سامان موجود ہے جو شاہین فورس کے پاس ہوگا، لیکن اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑ رہا ہے۔
یہ بھی واضح نہیں ہے کہ سنائپرز یا نئی فورس مجرموں کو کس طرح پکڑ ے گی، خاص طور پر اگر صحیح تفتیشی کام پہلے سے نہیں کیا گیا ہے۔ترجیح تربیت پر ہونی چاہیے، اور تفتیش کے ذریعے فعال پولیسنگ اور جرائم کو حل کرنا، اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ مجرموں کو صحیح معنوں میں کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور شہر امن کا گہوارہ بن سکے۔