مومنہ لاڑک کیس، بچوں سے جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات پر آخر کب قابو پایا جائے گا؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مومنہ لاڑک کیس، بچوں سے جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات میں اضافہ کیوں ہورہا ہے؟
مومنہ لاڑک کیس، بچوں سے جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات میں اضافہ کیوں ہورہا ہے؟

رواں برس کے پہلے ماہ کے دوران پہلی بار یہ اندوہناک خبر سننے کو ملی کہ خیرپور میں ایک اور ننھی کلی کو کسی جنسی درندے نے زیادتی کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا جو اپنی نوعیت کا کوئی پہلا کیس نہیں ہے بلکہ یہ واقعات اب بدقسمتی سے معمول کا حصہ بنتے چلے جا رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور بالخصوص پولیس ایسے واقعات کو روکنے میں ناکام کیوں نظر آتے ہیں؟ بچوں سے جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات میں اضافہ کیوں ہورہا ہے؟ آئیے ایسے ہی تمام تر سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تازہ ترین کیس 

فی الحال اِس کیس کے حوالے سے زیادہ تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔ ضلع خیر پور میں کسی جنسی درندے نے مونیکا نامی 7 سالہ بچی کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کردیا ہے جبکہ یہ واقعہ خیر پور کے علاقے پیر جو گوٹھ میں پیش آیا۔

پیر جو گوٹھ میں 7 سالہ بچی کو اغواء کیا گیا اور مبینہ جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔ ملزمان بچی کو کیلوں کے باغ میں لے گئے اور اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جس کے بعد بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا جس کی لاش اسی باغ میں چھپائی گئی۔

جب علاقہ مکین باغ میں پہنچے تو بچی کی لاش مل گئی جس کے بعد پولیس کو اطلاع کی گئی، پولیس نے بچی کی لاش پوسٹ مارٹم کیلئے ہسپتال منتقل کردی۔ متعلقہ ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ بچی پر لکڑیوں سے وار کرکے قتل کیا گیا۔ لواحقین نے اس بہیمانہ ظلم و تشدد کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کرایا ہے۔

بچی کے والد کی مدعیت میں درج مقدمے میں 3 نامعلوم ملزمان نامزد ہیں۔ مقدمے کے متن میں دہشت گردی اور قتل کی دفعات شامل ہیں۔ ایس ایس پی خیرپور امیر سعود کا کہنا ہے کہ بچی کے جسم سے سیمپل اور فنگر پرنٹس لے چکے ہیں۔ کچھ مشکوک افراد سے تفتیش جاری ہے۔ مزید تفصیلات مکمل تفتیش کے بعد سامنے آئیں گی۔

سوشل میڈیا کا ٹاپ ٹرینڈ 

میڈیا رپورٹ کے مطابق بچی کا نام مونیکا ہے تاہم سوشل میڈیا صارفین نے اسی بچی کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے اسے مومنہ لاڑک بتایا ہے اور آج کا سوشل میڈیا ٹاپ ٹرینڈ بھی جسٹس فار مومنہ لاڑک ہے۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا صارفین نے ٹاپ ٹرینڈ سیٹ کرنے سے قبل بچی کے درست نام پر تحقیق نہیں کی، بہرحال یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔

سوشل میڈیا صارف حسیب اسلم سمیت دیگر شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر شرعی سزائیں نافذ کردی جائیں تو ایسے کیسز ہی نہیں ہوں گے۔ حسیب عالم نے واقعے کا ذمہ دار وفاقی حکومت اور وزیرِ اعظم کو ٹھہرایا ہے۔ 

https://twitter.com/MianH222/status/1348851527709044736

بچوں کے ساتھ جنسی واقعات کی شرح

وطنِ عزیز پاکستان میں اوسطاً تقریباً 12 بچوں کوروزانہ جنسی ہراسگی یا زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے جن کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں اور بعض اوقات ایسے بچوں کو قتل بھی کیا جاتا ہے تاہم موجودہ دور میں قتل کی شرح میں بھی تیزی دیکھی جارہی ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے مخٹلف علاقوں میں ڈیڑھ سال کے دوران بوں سے زیادتی کے 276 واقعات رپورٹ کیے گئے جن میں سے 60 واقعات کا تعلق پشاور، نوشہرہ اور مردان سے تھا۔ 2019ء میں کے پی کے میں بچوں سے جنسی زیادتی کے 185 واقعات میں سے 135 کم عمر لڑکوں جبکہ 50 لڑکیوں کےساتھ پیش آئے۔ 

سن 2015ء سے شروع ہونے والی کہانی 

بلاشبہ پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات کوئی پانچ یا دس سال پرانے نہیں بلکہ یہ عشروں پرانے ہوسکتے ہیں تاہم سب سے پہلے 2015ء میں قصور میں بچوں کی فحش ویڈیوز کا واقعہ سامنے آیا۔

جرائم پیشہ گروہ نے 400 نابالغ بچوں کی مخربِ اخلاق ویڈیوز بنا کر پیسے کیلئے ان کے اہلِ خانہ کو بلیک میل کیا تھا۔ سن 2015ء میں بچوں سے جنسی زیادتی کے 3 ہزار 768 واقعات رپورٹ کیے گئے جبکہ اگلے ہی برس ان واقعات میں مزید اضافہ ہوا۔

اگلے برس یعنی 2016ء میں یہ واقعات 10 فیصد بڑھ کر 4 ہزار 139 ہو گئے، 2017ء میں 3 ہزار 445 جبکہ 2018ء میں 3 ہزار 832 واقعات رپورٹ کیے گئے۔ تقریباً 59 فیصد واقعات میں بچیاں جبکہ 41 فیصد واقعات میں بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوئے۔

مجرم کون لوگ ہیں؟ 

ایک بڑی غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ بچوں کے ساتھ کوئی بین الاقوامی گروہ جنسی زیادتی کر یا کروا رہا ہےاور وہی گروہ بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کرادیتا ہے، پاکستان کے لوگوں میں ایسے کوئی جراثیم نہیں ہیں کہ وہ جنسی زیادتی جیسے قبیح جرم کے مرتکب ہوں۔

یہ غلط فہمی دور کر لیجئے کیونکہ بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے زیادہ تر واقعات میں بچوں کے قریبی رشتہ دار اور پڑوسی ان کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل جیسے واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں جن میں پولیس اہلکار، اساتذہ اور دینی تعلیم دینے والے معلمین تک شامل ہیں۔ 

زینب قتل کیس اور زینب الرٹ بل 

قصور میں زینب امین نامی بچی کو 4 جنوری 2018ء کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا جس کے بعد ملک بھر میں بھرپور احتجاج ہوا۔ قاتل کو 17 اکتوبر 2018ء کو پھانسی دے دی گئی۔

قومی اسمبلی نے زینب الرٹ بل کی منظوری زینب کے قتل کے 2 سال بعد سن 2020ء میں دی۔ بل کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا 1 لاکھ روپے جرمانہ اور عمر قید جبکہ کم سے کم سزا 10 سال قید ہوگی۔

سخت سزاؤں کی ضرورت

ایسے اسلامی ممالک جہاں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی پر پھانسی کی سزا دے دی جاتی ہے، وہاں جنسی زیادتی اور قتل کی شرح نسبتاً کم ریکارڈ کی گئی ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بھی چاہئے کہ سن 1973ء کے آئین میں کیے گئے وعدے کے تحت شرعی قوانین کے نفاذ کا قومی وعدہ پورا کرے اور عوام کو ان کا بنیادی انسانی حق یعنی انصاف فراہم کیا جائے۔ 

زینب الرٹ بل میں بھی جنسی زیادتی اور قتل کے ملزم کو سرِ عام پھانسی دینے کا عوامی مطالبہ پورا نہیں کیا جاسکا۔ جب تک قاتلوں کو سخت سزائیں نہیں دی جاتیں، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے جرائم کے خاتمے کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی، اور یہی آج کے دور کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ 

Related Posts