دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار بھارت خود کو ہندو نہیں بلکہ سیکولر ریاست کہتا ہے تاہم جب سے شدت پسند سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بھارت میں اقتدار حاصل کیا اور سیاسی میدان میں مرکزی کھلاڑی کی حیثیت سے ابھری، بھارت میں ہندو قوم پرستی اتنی بڑھ چکی ہے کہ پسِ پردہ آر ایس ایس کے پیروکار ہی بھارت کے کرتا دھرتا بن کر بیٹھ گئے ہیں جس کے خلاف بھارت کی اپوزیشن جماعتوں، بالخصوص کانگریس نے ہمیشہ آواز بلند کی۔
پھر بھی کسی نہ کسی طرح بی جے پی گزشتہ 2 انتخابات میں فتح حاصل کرنے میں کامیاب رہی جس سے ملک بھر میں یقینی طور پر تناؤ پیدا ہوا ۔ اس سے اقلیتی طبقات کے حقوق بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ بد قسمتی سے بھارت میں عدم برداشت، شدت پسندی اور ہندو مذہبی جنون اس سے کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے جتنا کہ میڈیا پر دکھایا جاتا ہے۔ایسے میں سیکولر پارٹی کے طور پر کانگریس کی آواز دب کر رہ گئی ہے جس پر بھارت کی کثیر آبادی کو ملال ہے۔
موبائل لون ایپس کے ذریعے عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے؟
کانگریس جیسی جماعتوں کو تکثیریت اور سیکولر ازم کا دفاع کرتے ہوئے بھی احتیاط کے کافی تقاضے ملحوظِ خاطر رکھنے پڑتے ہیں کیونکہ بی جے پی جب سے اقتدار میں آئی ہے، اقلیتی گروہوں، خاص طور پر بھارت کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کے خلاف عدم برداشت ، مشتعل ہجوم کی مدد سے بد ترین تشدد اور شدت پسندی کے دیگر ناقابلِ ذکر واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ راقم الحروف کی ذاتی رائے یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف گزشتہ 1 دہائی میں بھارت میں جس بد ترین نفرت کے مظاہرے شروع ہوئے ہیں، کانگریس کو اسے بے اثر کرنا اور بھارتی معاشرے کو قومی دھارے میں لانا بے حد مشکل ثابت ہوگا۔
خاص طور پر بھارت کو اس جگہ واپس لانا جہاں رواداری اور تکثیرت بھارتی قوم میں کسی نہ کسی حد تک پائی جائے، بے حد مشکل ہوگا۔ آج بھارت میں عدم برداشت اور شدت پسندی خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے جبکہ 70 کی دہائی تک کانگریس پارٹی کے حکومت میں رہنے کے باعث یہ شدت پسند طبقات اعتدال میں تھے ۔ ماضی میں گاندھی جی کو 1948ء میں آر ایس ایس کے ہی ایک پیروکار نے قتل کیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ 2019ء کے عام انتخابات کے بعد جس میں بی جے پی نے ایک بار پھر واضح اکثریت حاصل کی جس سے ان گروہوں کی حوصلہ افزائی ہوئی جو بھارت کے معاشرے میں کسی دہشت سے کم نہیں، اس کا بھارت پر کافی منفی اثر پڑا ہے۔
یہ منفی اثر اس قدر زیادہ ہے کہ قومی سیاست اور سماجی زندگی بد ترین مسائل کا شکار ہوچکی ہے او رپورے بھارت میں عدم برداشت اور تشدد کی حکومت نظر آتی ہے۔ یہ اس قدر زہریلی صورتحال ہے کہ بہت سے سیاسی رہنماؤں کی انفرادی گفتگو کثرت سے اپنے مخالفین کو شیطان ظاہر کرنے اور اقلیتی گروہوں کے خلاف تشدد پر اکسانے کا منبع نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ سے بے شمار افراد ہجوم کی پر تشدد کارروائیوں کا شکار ہوئے جن میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مسیحی بھی شامل ہیں جو ہندو انتہا پسندوں کا نشانہ بنے۔ اگر مساجدپر حملے ہوئے ہیں اور بابری مسجد سمیت دیگر مساجد کو مسمار کیا گیا تو بہت سے گرجا گھروں کو بھی جلایا گیا ہے۔ ایسے میں ہندو قوم اپنی اعتدال پسند شناخت برقرار رکھنے میں ناکام ہے جو گزشتہ دور میں سیکولرزم کے باعث ممکن ہوا۔ اگر ہم تبدیلی کے بارے میں بات کریں تو کانگریس یا دیگر پارٹیاں یہ تبدیلی لا سکتی ہیں۔
چین اور بھارت کے تعلقات میں دراڑیں پڑنے سے خطے کے جیو پولیٹیکل منظر نامے میں تبدیلی رونما ہوئی لیکن اس کے باوجود بھارت کے اندر جو ہورہا ہے اور جس طرح برسوں بعد یہ ہندو مسلم فسادات اور جھڑپیں جس شدت سے بار بار ابھر کر سامنے آرہی ہیں، یہ کافی تشویشناک صورتحال ہے۔
دوسری جانب مودی حکومت نے امریکا اور اس کے اتحادیوں سے کچھ معاہدے کیے ہیں اور وہ کواڈ (Quad) کے بہت مستحکم رکن بن چکے ہیں۔ خطے میں اسٹرنگ آف الائنس کے اہم رکن کے طور پر یہ امریکا کا بنایا ہوا اتحاد ہے۔ بھارت عالمی سطح پر اپنے معاہدوں کا فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہے۔ بھارت نے اپنی جغرافیائی اہمیت کے اعتبار اورامریکا کی خارجہ پالیسی کے لحاظ سے اوّل نمبر کے ملک کا درجہ حاصل کیا ہے جو چین پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے، اس کے تحت مودی حکومت انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ جیسے معاملات کے نتائج بھگتنے سے بچنے میں کامیاب رہی ہے۔ مذہبی آزادی کی رپورٹ ہو یا امریکی کمیشن کی رپورٹ اور دیگر تمام تنقید جو بھارت پر عالمی سطح پر کی گئی ،مودی حکومت اس سے آسانی سے بچ گئی۔
محسوس ایسا ہوتا ہے کہ بی جے پی حکومت اپنے آئندہ انتخابات کیلئے اپنی سفارتی کاوشوں کو بنیاد بنانا چاہتی ہے اور مرکز میں بی جے پی دوبارہ اپنی طاقت برقرار رکھنے کی کوشش کرے گی ۔ ووٹ بینک سے مزید فائدہ حاصل کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی کیونکہ بی جے پی اپنے پڑوسی ممالک یعنی پاکستان اور چین کے خلا ف بیان بازی میں کامیاب رہی ہے۔
حقائق یہ ہیں کہ بھارت میں مسلم دشمنی کے واقعات میں بے حد اضافہ ہوا ہے، مسلم طالبات کے حجاب پر پابندی کا ذکر کیجئے، مسلمانوں کی مساجد کی مسماری ہو یا پھر مسلمانوں سے جے شری رام کے نعرے لگوانے کیلئے ہجوم کے ذریعے تشدد، اس قسم کے واقعات سے بھارت میں ایک عام مسلمان کے ذہن میں یہ تصور پیدا ہوچکا ہے کہ کیا ہم بھارت کے حقیقی محب وطن شہری نہیں ہیں؟ ایسے میں بھارتی مسلمانوں کو صرف اللہ تعالیٰ سے ہی مدد کی امید ہے۔ مودی حکومت اور اپنے ہم وطن بھارتی دوستوں اور ہمسایوں سے بھی کوئی امید نہیں۔ بقول قمر ؔ جلالوی:
گلستاں کو لہو کی ضرورت پڑی، سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے یہ اہلِ چمن، یہ چمن ہے ہمارا، تمہارا نہیں
ظالمو! اپنی قسمت پہ نازاں نہ ہو، دور بدلے گا، یہ وقت کی بات ہے
وہ یقیناً سنے گا صدائیں مری، کیا تمہارا خدا ہے، ہمارا نہیں؟