عمران خان کی قانونی مشکلات

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گزشتہ روز توشہ خانہ کیس میں سزا معطل ہونے کے بعد عمران خان کی رہائی کا حکم جاری کرکے ایک بڑا ریلیف دیا گیا تاہم عمران خان کی قانونی مشکلات تاحال ختم نہیں ہوئیں۔ 

منگل کے روز ہی عمران خان کی گمشدہ سائفر کیس میں گرفتاری ڈال دی گئی۔ ریاستی تحائف کی فروخت سے متعلق توشہ خانہ کیس میں سزا معطل کیے جانے کا فیصلہ ہی متوقع تھا کیونکہ اس کا ماتحت عدالت کے جج نے عمران خان کو 3سال کی سزا عجلت میں سنائی۔

فیصلہ سنانے والے جج کو پی ٹی آئی کے حامیوں اور یہاں تک کہ اعلیٰ عدلیہ نے بھی فیصلے میں ”طریقہ کار کی خامیوں“ کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان 5اگست سے 3سال کی سزا سنائے جانے کے بعد گرفتاری اور قید کی سزا بھگتنے لگے۔ اس بار انہیں سائفر کیس میں گرفتار کیا گیا ہے جسے پی ٹی آئی سربراہ نے اقتدار سے بے دخل کیے جانے کیلئے بیرونی سازش قرار دیا۔

یہ مقدمہ متنازعہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 2023 کے خلاف درج کیا گیا تھا اور اس کیس کی سماعت کے لیے ایک خصوصی عدالت تشکیل دی گئی۔ کچھ ایسا ہی مقدمہ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پر بھی مقدمہ چل رہا ہے۔

عمران خان کو دہشت گردی، بغاوت اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے سمیت 150 سے زائد مقدمات کا سامنا ہے۔ حکام عمران خان کو دوبارہ وزیر اعظم بننے سے روکنے کی کوشش میں ان کو نااہل قرار دینے یا جیل بھیجنے پر تلے ہوئے ہیں۔

پی ٹی آئی اب اپنی سابقہ حیثیت بحال کرنے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ کئی پی ٹی آئی رہنما یا تو تحریک سے لاتعلق یا جیلوں میں بند ہو چکے ہیں۔ ہزاروں پی ٹی آئی کارکنان بھی جیلوں میں ہیں اور میڈیا تحریکِ انصاف کے حق میں نہیں۔ تاہم یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی اگلے انتخابات میں اس صورتحال کا بھی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔
اگلے عام انتخابات فی الحال قریب دکھائی نہیں دیتے۔ الیکشن کمیشن پہلے ہی واضح کرچکا کہ نئی مردم شماری کے تجزئیے، انتخابی فہرستوں کی تیاری اور نئی حلقہ بندیوں میں وقت لگے گا۔

عام انتخابات جلد ہونے کا امکان نہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ریاستی حکام اپنی کوششیں عمران خان پر مرکوز کیے ہوئے ہیں جو جھکنے سے انکار کرچکے ہیں جبکہ ایک حالیہ رپورٹ یہ انکشاف کرتی ہے کہ سیاسی عدم استحکام کے باعث جی ڈی پی کا 3فیصد حصہ متاثر ہوا۔

قوم گہری سیاسی دلدل میں دھنسی ہوئی ہے اور ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔حکامِ بالا اور اسٹیبلشمنٹ اگر اپنی توجہ سیاسی استحکام پر مرکوز کرے تو ملکی معیشت کو بہتری کی جانب گامزن کیاجاسکتا ہے اور یہ الگ مسئلہ ہے کہ سیاسی استحکام عمران خان کو سیاسی دھارے سے الگ کرکے حاصل ہونے والا نہیں۔  

Related Posts