کیا عمران خان 5سال پورے کرنے والے ملک کے پہلے وزیر اعظم بن سکیں گے؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کیا عمران خان 5سال پورے کرنے والے ملک کے پہلے وزیر اعظم بن سکیں گے؟
کیا عمران خان 5سال پورے کرنے والے ملک کے پہلے وزیر اعظم بن سکیں گے؟

پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وزیر اعظم کے طور پر اقتدار کی باگ ڈور 2018 کے عام انتخابات کے بعد سنبھالی اور اگر پی ٹی آئی کے دعوے درست ہیں کہ اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہوگی تو عمران خان 5سال پورے کرنے والے ملک کے پہلے وزیر اعظم ہونگے۔

پاکستان کی قومی تاریخ عجیب و غریب ابواب سے پر ہے جہاں اقتدار پر سیاسی شخصیات کی بجائے عشروں تک عسکری حکمرانی غالب رہی اور اگر کوئی وزیر اعظم آبھی جاتا تو اسے کسی نہ کسی طرح 5سال پورے کرنے سے قبل ہی اقتدار سے ہاتھ دھونے پڑتے تھے۔ آئیے تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

وزیر اعظم کیخلاف عدم اعتماد، کیا شوکاز نوٹس سے منحرف اراکین واپس آجائیں گے؟

پاکستان پر فوجی حکمرانی

اپنے معرضِ وجود میں آنے سے لے کر مختلف ادوار میں پاکستان نے 30 سال سے زائد عرصہ فوجی حکمرانوں کے زیر سایہ گزارا جس میں 1958 سے لے کر 1971، پھر 1977 سے لے کر 1988 اور پھر 1999 سے لے کر 2008 تک طویل ادوار شامل ہیں۔

عسکری حکمرانی کا پہلا عرصہ کم و بیش 13 سال (1958 سے لے کر 1971 تک)، دوسرا 11 سال (1977 سے 1988) جبکہ تیسرا تقریباً 9 سال (1999 سے لے کر 2008 تک) بنتا ہے اور مجموعی طور پر پاکستان پر کم و بیش 33 سال تک فوجی حکومت رہی۔ 

آئین کی معطلی اور مارشل لاء

یہاں بڑا سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ کس نے کب تک پاکستان پر حکمرانی کی توسب سے پہلے 1958 میں پاکستان کے صدر میجر جنرل سکندر مرزا نے اسمبلی تحلیل کردی اور وزیر اعظم فیروز خان نون کی حکومت گرائی۔ انہوں نے آرمی چیف جنرل ایوب خان کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا۔

اس کے 13ہی روز بعد جنرل سکندر مرزا کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا کیونکہ اُس وقت کے آرمی چیف ایوب خان نے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سے ایک قدم آگے بڑھ کر صدرِ مملکت کا عہدہ سنبھال لیا تھا۔ یہ حکومت 1971ء یعنی سقوطِ ڈھاکہ کے سال تک قائم رہی۔ 

ستر کی دہائی پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے نام رہی جو 1973 سے لے کر 1977 تک ملک کے وزیر اعظم اور اس سے قبل 1971 سے 1973 تک صدرِ پاکستان کے عہدے پر فائز رہے۔ 1977 بعد ازاں اُس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ دیا۔

جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو سمیت دیگر وفاقی وزراء کے ہمراہ گرفتاری کا حکم دیا اور ایوانِ اقتدار پر براجمان ہو گئے اور اسی دوران 1979 میں ملک کی تاریخ میں پہلی بار کسی وزیر اعظم کو پھانسی دے دی گئی جو پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ 

جنرل ضیاء الحق کا عہدِ اقتدار 1988ء میں ان کی شہادت کے بعد ختم ہوا جس کے بعد طویل عرصے تک اقتدار پر سیاسی حکمرانوں کی رسہ کشی جاری رہی۔ 

سیاسی رسہ کشی کا دور 

آگے چل کر 1988 سے لے کر 1990 تک اور پھر 1993 سے لے کر 1996 تک ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو وزیر اعظم رہیں تاہم بدعنوانی کے الزامات عائد کرکے ان کی حکومت بھی تحلیل کردی گئی۔ اسی دوران نواز شریف کو بھی وزارتِ عظمیٰ کی کرسی سنبھالنے کا موقع ملا۔ 

ن لیگ کے تاحیات قائد نواز شریف 1990 سے لے کر 1993 تک، پھر 1993 کے کچھ ماہ تک، وزیر اعظم رہے۔ 1997 سے لے کر 1999 تک بھی پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف ہی تھے جس کے بعد ملک کے آخری فوجی حکمران پرویز مشرف کا دور شروع ہوتا ہے۔ 

چیف ایگزیکٹو اور دیگر وزرائے اعظم 

آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے پہلے پہل 1999 میں خود کو چیف ایگزیکٹو آف پاکستان کا عہدہ دیا اور جلد از جلد انتخابات کروا کر اقتدار سیاسی حکومت کو منتقل کرنے کا وعدہ کیا، تاہم یہ وعدہ وفا نہ ہوسکا اور 2008 تک ان کی اقتدار سے بے دخلی پر جا کر ختم ہوا۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں اور اس کے بعد بھی دیگر وزرائے اعظم آتے اور جاتے رہے جن میں مظفر اللہ خان جمالی (2002 سے 2004)، چوہدری شجاعت حسین (2004)، شوکت عزیز (2004 سے 2007)، محمد میاں سومرو(2007 سے 2008) شامل ہیں۔

پھر یوسف رضا گیلانی (2008 سے 2012)، راجہ پرویز اشرف (2012 سے 2013)، میر ہزار خان کھوسو (2013)بھی وزرائے اعظم بنے۔ نواز شریف نے بھی 2013 سے 2017 تک وزارتِ عظمیٰ سنبھالی تاہم پھر سپریم کورٹ نے انہیں نااہل کردیا۔ 

شاہد خاقان عباسی 2017 سے 2018 تک اور نگراں وزیر اعظم جسٹس ناصر الملک بھی اس کرسی پر براجمان ہوئے تاہم ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ آج تک کوئی وزیر اعظم 5سال پورے نہیں کرسکا جبکہ 2018 سے موجودہ وزیر اعظم عمران خان اقتدار کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں۔ 

کیا عمران خان 5سال پورے کرینگے؟

ایک طرف اپوزیشن نے رواں ماہ کے آغاز میں تحریکِ عدم اعتماد جمع کروا کر حکومت کو جلد سے جلد گھر بھیجنے کے دعوے کرنا شروع کردئیے ہیں اور تکنیکی اعتبار سے بھی حکومت اتحادیوں کی بیساکھیوں پر ڈانواں ڈول نظر آتی ہے تاہم پی ٹی آئی حکومت نے تاحال ہار نہیں مانی۔

اپوزیشن نے 8مارچ کو تحریکِ عدم اعتماد جمع کرائی۔ اسپیکر اسد قیصر تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے کے 3 سے 7روز کے اندر ووٹنگ کرانے کے پابند تھے تاہم گزشتہ روز قومی اسمبلی کا اجلاس پیر 28مارچ تک ملتوی کردیا گیا۔

قومی اسمبلی میں اراکین کی کل تعداد 342 بنتی ہے۔ اپوزیشن اور حکومت دونوں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس 172 اراکین کی اکثریت بلکہ زائد اراکین موجود ہیں جو تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی کیلئے ضروری ہوتے ہیں۔

اگر تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو عمران خان دیگر وزرائے اعظم کی طرح 5سال پورے نہیں کرسکیں گے تاہم اگر یہ تحریک ناکام ہوئی تو پی ٹی آئی حکومت 5سال پورے کرنے میں کامیاب ہوجائے گی اور عمران خان کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔

Related Posts