موجودہ دور میں جو کچھ جہانگیر ترین کے ساتھ ہورہا ہے اور جو عداوت وہ سہہ رہے ہیں، یہ بات مجھے عمران خان کے متعلق میری اصل نصیحت کی یاد دلاتی ہے جو آہستہ اور تکلیف دہ طریقے سے سچ ثابت ہورہی ہے، لیکن اس سے قبل کچھ اہم واقعات پر نظر ڈالنا ضروری محسوس ہوتا ہے جو انہی واقعات کی طرف اشارہ کرتے محسوس ہو رہے تھے جس سے ایک ثقافتی ماحول تشکیل پایا۔ نہ صرف یہ کہ وزیرِ اعظم میں سیاسی صلاحیتوں کی کمی ہے بلکہ ان کے پاس ایک نااہل ٹیم بھی موجود ہے۔
پہلی بار یہ بات ان کے میراتھن دھرنے کے دوران سامنے آئی جب ان کا ایک حامی میٹرو بس ٹریک کیلئے کھودی گئی کھائی میں جمع ہونےوالے بارش کے پانی میں ڈوب گیا جو پی ٹی آئی کے کنٹینر کے ساتھ ہی تھا لیکن وہ تشویش ظاہر کرنے میں ناکام رہے، یہاں تک کہ مرنے والے کی میت تک بھی چل کر نہ جاسکے۔
پھر اسی دوران اے پی ایس پشاور کا خوفناک قتلِ عام سامنے آیا، اچانک دھرنا ختم کردیا گیا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ عمران خان کے حلقۂ انتخاب میں اسکول کے بچوں اور ان کے اساتذہ کے اندوہناک قتل کے 20 دن بعد عمران خان کی شادی ہوگئی۔ ہمارے معاشرے کے پڑوسی، عمائدین اورعلاقہ معززین ایسے مواقع پر اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں اور غم بانٹتے ہیں، شادی نہیں کرتے۔ کم سے کم 40 دن تک تو سوگ منایا ہی جاتا ہے۔اگر کوئی وجہ پوچھ سکے تویہ ضرور پوچھنا چاہئے تھا کہ شادی کی اتنی جلدی کیا تھی؟ ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ عام طور پر شادی کسی بھی فرد کا ذاتی معاملہ ہوا کرتی ہے لیکن ایک عوامی رہنما کی حیثیت سے انہیں رول ماڈل بننا چاہئے تھا کیونکہ یہ کوئی عام نوعیت کا نہیں بلکہ اخلاقی معاملہ تھا جو سیاسی رہنماؤں کیلئے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
پارلیمان میں بطور وزیرِ اعظم عمران خان خود پر اس سرعت سے قابو کھو بیٹھے کہ کبھی بھی اسے دوبارہ حاصل نہ کرسکے اور اب ان کی حکومت تیسرے سال میں داخل ہوچکی ہے۔ یہ وہ نہیں جو قد آور افراد اور سیاستدانوں کو کرنا چاہئے۔ عمران خان کو اپنا گیئر تبدیل کرکے شخصی اضطراب اور بے چینی کو قوم کی تعمیرِ نو میں بدلنا ہوگا۔
پھر کچھ ہی مہینوں میں عمران خان شریک حیات سے الگ ہو گئے اور ناجائز طور پر ایک شادی شدہ خاتون کو شادی کیلئے منتخب کیا جو پہلے ایک اچھی شادی شدہ زندگی گزار رہی تھی۔ عوام جانتے تھے کہ وہ عمران خان کی پیرنی تھیں جنہوں نے طلاق لے کر عمران خان سے شادی کر لی۔ ہمارا معاشرے میں اس قسم کے مبہم رشتے کوئی اچھا تاثر نہیں دیتے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے افعال پر ناگوار گپ شپ کی جاتی ہے جس سے عوام میں بے چینی جنم لیتی ہے اور سنجیدہ ذہن رکھنے والے لوگ یہ باتیں پسند نہیں کرتے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ عمران خان کے بہت قریبی سمجھے جانے والے سیاسی رہنماؤں نے اس صورتحال کا کیسے فائدہ اٹھایا؟ جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے پارٹی کے منجھے ہوئے سیاستدان عمران خان کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ یہ بات بڑی واضح طور پر سامنے آئی کہ جب مشکل وقت سامنے آیا تو انہیں اکیلا چھوڑ دیا گیا۔ کریلے پر نیم چڑھا یہ کہ عمران خان نے ان سے فاصلہ اختیار کر لیا اور قانون اور ضوابط کی بات ہونے لگی۔ کسی کو بھی عمران خان سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ عدالتوں یا تحقیقات پر اثر انداز ہوتے لیکن کم از کم وہ اپنے آزمائے ہوئے رہنماؤں کیلئے ہمدردی جتا سکتے تھے اور ان سے یکجہتی کا اظہار کرسکتے تھے تاہم انہوں نے ایسا نہیں کیا اور اپنے ہی ساتھیوں پر تحقیقات اور احتساب نامی کتے چھوڑ دئیے۔ خاص طور پر یہ جہانگیر ترین جیسے قابلِ بھروسہ ساتھی اور ان کے بیٹے کے ساتھ کیا گیا۔ اب لوگ بارش، آندھی یا زلزلوں میں بھی دوستوں کے ساتھ کھڑے رہنے کی قدیم ترین روایت کی تباہی دیکھنے پر مجبور ہیں۔
اسی طرح ندیم بابر اور درانی بھی ان کی اعلیٰ اخلاقیات کے جال سے باہر پھسل گئے جبکہ ان پر بدعنوانی کے بڑے الزامات عائد تھے اور لوگ دیگر دھوکوں (اسکیمز) کے سیلاب میں بہہ کر یہ بات نہیں بھولے۔
ایک اور معاملہ نواز شریف کی بیرونِ ملک روانگی تھی۔ وزیرِ اعظم اس معاملے پر اخلاقی جرات کا مظاہرہ کیوں نہ کرسکے کہ ثابت شدہ مجرم نواز شریف کو ایک کاغذ کے معمولی ٹکڑے پر کیسے ملک سے باہر بھیج دیا گیا؟ وزیرِ اعظم کیوں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے طنزیہ سوال کا جواب نہ دے سکے کہ میاں نواز شریف کی زندگی کی کیا ضمانت دی جاسکتی ہے؟ کیا چیف جسٹس خود اپنے لیے زندگی کے مزید ایک بھی دن کی گارنٹی دے سکتے تھے؟ یہی وہ معاملہ تھا جس میں وزیرِ اعظم کی ذہانت کا امتحان لیا گیا اور وہ اس میں ناکام ثابت ہوئے۔ اب وہ اس فیصلے کا ملبہ ڈاکٹروں اور کابینہ پر ڈالتے ہیں اور برطانیہ کی حکومت کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں جبکہ یہ کرکٹ نہیں، سیاست کا میدان ہے۔
سب سے پہلے اس کا گواہ ان کے سیلیکٹیڈ وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو بنایا جاسکتا ہے جو صوبے میں تباہی و بربادی کے ذمہ دار ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ جب نواز شریف ایک حقیقی وزیرِ اعظم کی طرح اڈیالہ جیل سے نیب تک شاہی سواری میں لے جائے جاتے تھے تو پی ٹی آئی حکومت نے خود کو، انتظامیہ کو اور عوام الناس کو مایوس کیا کیونکہ نواز شریف سے قومی خزانہ لوٹنے والے ملزم کا سا سلوک نہیں کیا گیا۔ لوگوں نے غور کیا تو وزیرِ اعظم کا ہمت و حوصلہ نظر آیا کہ وہ لٹیروں کے خلاف کھڑے نہیں ہوسکتے اور حکومت جرائم کی بیخ کنی کیلئے کھڑی نہیں ہوسکتی۔
پھر ہم عمران خان کی عادت دیکھتے ہیں کہ وہ مضبوط ذہن کے ساتھیوں کو دیوار سے لگا دیتے ہیں جس میں بظاہر اس خوف کا ہاتھ نظر آتا ہے کہ وہ کہیں عمران خان کی قدر میں کمی نہ کردیں۔ شہریار آفریدی کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے رئیل اسٹیٹ کی قبضہ مافیا کے دلوں میں خوفِ خدا پیدا کیا۔ تاہم وزیرِ اعظم نے داغدار کردار کے حامل افراد کو پسند کیا یا یوں کہئے کہ زلفی بخاری، ندیم بابر، شہباز گل اور اسی کیمپ کے دیگر افراد کے ساتھ گھومنا پھرنا پسند کیا۔ ان میں سے کچھ مستثنیات بھی ہیں جیسا کہ ڈاکٹر ثانیہ نشتر اور حماد اظہر وغیرہ اور حماد اظہر کا کردار بھارت کے ساتھ تجارت سے پابندی ہٹانے کے مسئلے پر پہلے ہی مشکوک ہوچکا ہے۔ اب اگر پارٹی میں کوئی چھوٹی موٹی بغاوت پیدا نہیں ہوگی تو اور کیا ہوگا؟
ایک طویل المیعاد تجزئیے کے بعد یہ کہنا آسان محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی نے حکومت عمران خان کے ثقافتی رویے اور شخصی تضاد سے شروع کی۔ محسوس یہ بھی ہوتا ہے کہ عمران خان مغربی ثقافت میں کچھ زیادہ ہی گھل مل گئے جس سے ان کی اپنی سماجی قدریں اور روایات سے متعلق سوچ کہیں کھو کر رہ گئی۔ مثلاً عمران خان موت کے موقعے پر غم کا اظہار مناسب طور پر نہیں کرسکتے، مناسب مواقع اور شادی کے درست امیدوار کی تلاش نہیں کرسکتے اور دوستوں اور پرانے ساتھیوں کی حمایت تو بالکل نہیں کرسکتے۔ مزید دقت طلب امر یہ ہے کہ جب عوام پر یہ باتیں ظاہر ہوتی ہیں تو وہ اپنی غلطیوں کا الزام دوسروں کے سر تھوپ دیتے ہیں۔ حتمی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان دستیاب مواقع کو دیکھنے یا پہچاننے اور انہیں حاصل کرنے کیلئے درست وقت پر اقدام اٹھانے سے قاصر ہیں۔
وزیرِ اعظم کے مزاج کی سختی عاجزی اور دانائی کو کم ہی برداشت کرتی ہے اور ملک کی ساکھ اور عزت و ناموس اور عوامی مفادات کو زیادہ ترجیح نہیں دے سکتی۔
اہم گزارش: ادارے کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔