کراچی:پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت کے باعث استعمال شدہ (لنڈے کے)کپڑوں کی درآمد گذشتہ سال کے مقابلے میں تقریبا دگنی ہو گئی ہے۔
وفاقی ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال2020-21 کے دوران سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کی درآمدات مقدار کے لحاظ سے 90 فیصد تک بڑھ کر 732،623 میٹرک ٹن جا پہنچی۔
جن کی مالیت 309.56 ملین ڈالر ہے جو کہ اس سے پچھلے مالی سال کے مقابلے میں قیمت کے لحاظ سے 83.43 فیصد اضافہ ہواہے۔
پاکستان نے مالی سال2021-22کے پہلے دو ماہ(جولائی تا اگست)کے دوران پرانے کپڑوں کی 186،299 میٹرک ٹن درآمد کی جو کہ گذشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 283 فیصد زیادہ ہے۔
اسی عرصے کے دوران ملک نے استعمال شدہ کپڑوں کی اشیا کی درآمد پر 79 ملین ڈالر خرچ کیے جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں 273.4 فیصد زیادہ ہے۔
پاکستان سیکنڈ ہینڈ کلاتھ مرچنٹس ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری محمد عثمان فاروقی نے اس ضمن میں بتایاکہ ملک میں افراط زر کے رجحان میں اضافے کی وجہ سے سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کا استعمال اور درآمد بڑھ رہی ہے۔
انہوں نے بتایاکہ وہ لوگ جو پہلے سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کا استعمال نہیں کر رہے تھے، وہ اب مہنگائی کے باعث پرانے کپڑوں کی مارکیٹوں کا رخ کر رہے ہیں۔ ملک کے شمالی حصوں میں ان کی مانگ زیادہ ہے جہاں غربت کے ساتھ سخت موسمی حالات اس کی وجہ ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کی درآمد کی ایک اہم وجہ غربت میں اضافہ ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے مطابق تقریبا 39 فیصد پاکستانی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔
سینئر ماہر معاشیات ڈاکٹر عبدالجبار خان نے بتایاکہ غربت کی وجہ سے لوگ کپڑوں اور کھانے کے درمیان انتخاب کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ان کی پہلی ترجیح ظاہر ہے کہ جسم اور روح کے درمیان رابطہ قائم رکھنا ہے۔
پاکستانی درآمد کنندگان نے بتایاکہ درآمد شدہ سیکنڈ ہینڈ اشیا بشمول کمبل، جیکٹس اور دیگر لباس اس وقت ملک کے غریب عوام کی کپڑوں کی ضروریات کا تقریبا 30 فیصد پورا کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: سول ایوی ایشن نے 6پاکستانی ایئرلائنز کو تنبیہی مراسلہ جاری کردیا