وزیرِ اعظم عمران خان کی قیادت میں تحریکِ انصاف کی وفاقی حکومت نے معمولی جرائم میں قید کی گئی خواتین کو سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق رہا کرنے کا فیصلہ کیا جس کے احکامات وزیرِ اعظم آفس سے جاری کیے گئے۔
سوال یہ ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کے اِس حکم سے رہائی پانے والی خواتین کیلئے اہلیت کی کیا شرائط ہیں اور کون کون سی خواتین اِس حکم کا فائدہ اٹھا سکیں گی۔ آئیے سپریم کورٹ کے حکم سے لے کر فیصلے کی اہمیت تک ہر نکتے کا جائزہ لیتے ہیں۔
سپریم کورٹ کا حکم
سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ خواتین کی رہائی کی ہدایت سپریم کورٹ کے ایک عبوری حکم نامے میں جاری کی گئی جس میں عدالتِ عظمیٰ نے کہا کہ جو خواتین معمولی جرائم میں سزا یافتہ ہیں یا جو جرمانہ ادا کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتیں، انہیں حکومت رِہا کردے۔
عبوری حکم نامے میں سپریم کورٹ نے خواتین کے ساتھ ساتھ بچوں کو بھی رِہا کرنے کا حکم دیا جس پر ایکشن لیتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان نے سزائے موت پانے والی اور غیر ملکی خواتین کی تفصیل بھی طلب کی۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان کے مطابق جو بھی خواتین رہا کی جائیں گی وہ ضمانت پر رِہا ہوں گی جو چیلنج نہیں ہوگی۔
رواں برس اپریل کے دوران سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے عبوری حکم نامہ جاری کیا۔ کورونا وائرس کے باعث قیدیوں کی رہائی کا عدالتی حکم سامنے آنے کے بعد سینکڑوں قیدیوں کو رِہا کردیا گیا۔
رہائی کی اہلیت
وہ قیدی خواتین جن کی سزا 3 سال سے کم ہو یا جن پر مقدمات زیرِ سماعت ہوں۔ شرط یہ بھی ہے کہ مذکورہ خواتین پر مقدمات نان براہیبٹری کلازز کے تحت درج کیے گئے ہوں۔ خواتین اور بچوں پر تشدد کے مقدمات میں نامزد خواتین پر اِس فیصلے کا اطلاق نہیں ہوسکے گا۔
ترجیحاً کسی مرض یا جسمانی معذوری کا شکار قیدی پہلے رہائی پاسکیں گے۔ عمر رسیدہ خواتین جو 55 برس یا زائد عمر کی حامل ہوں، وہ بھی فیصلے سے مستفید ہوسکتی ہیں۔ اِس کے علاوہ تمام خواتین اور کمسن قیدی بھی اِس فیصلے سے فائہد اٹھا سکیں گے۔
قید کی سزا پوری ہونے کے بعد جرمانہ ادانہ کرنے کے باعث مزید قید بھگتنے والی خواتین، 75 فیصد قید مکمل کرنے والی خواتین اور کمسن قیدی جنہیں ماضی میں کوئی سزا نہ ہوئی ہو، جن خواتین کی قید میں 6 ماہ یا کم وقت باقی بچا ہو، اور جنہیں ایک سال یا کم سزا ہوئی ہو، ایسی تمام خواتین اِس فیصلے سے مستفید ہوسکتی ہیں۔
کن جرائم میں قید خواتین فائدہ نہیں اٹھا سکیں گی؟
بڑے جرائم میں قید خواتین اِس فیصلے سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گی جن میں قتل، منشیات رکھنا، دہشت گردی ایکٹ اور وطن دشمنی سمیت دیگر بڑے بڑے جرائم شامل ہیں۔ چوری اور چھوٹے اسٹریٹ کرائمز میں 3 سال سے کم کی سزا ہوتی ہے۔ ایسی خواتین فیصلے کا فائدہ اٹھا سکیں گی۔
ملک بھر میں 450 خواتین پر قتل کے مقدمات درج ہیں جبکہ 346 خواتین ایسی ہیں جن پر منشیات سے متعلق مختلف الزامات عائد ہیں۔ ایسی تمام تر خواتین اِس فیصلے سے مستفید نہیں ہوسکتیں۔
پاکستان میں قیدیوں کے اعدادوشماراور خواتین
اِس وقت ملک بھر میں 73 ہزار 242 افراد مختلف جرائم میں سزا یافتہ ہیں یا گرفتار ہو کر قید بھگت رہے ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
ملک بھر میں اِس وقت 1 ہزار 121 خواتین قید کی سزا کاٹنے پر مجبور ہیں جبکہ 195 بچے بھی قیدیوں میں شامل ہیں جبکہ 134 ایسی خواتین ہیں جن کے ساتھ بچے بھی قید کی سزا بھگتنے پر مجبور ہیں کیونکہ وہ بچے ان کی اولاد ہیں اور وہ جیل ہی میں قید کے دوران پیدا ہوئے۔
کل 46 خواتین کی عمر 50 برس سے زائد ہے جبکہ 10 ایسی خواتین ہیں جو ابھی سنِ بلوغت تک نہیں پہنچیں۔ 727 خواتین قیدی صرف پنجاب میں ہیں۔
صوبہ سندھ میں 205 خواتین، کے پی کے میں 166، بلوچستان میں 20 جبکہ گلگت بلتستان میں 3 خواتین قید کی سزا کاٹ رہی ہیں جن میں سے 66.7 فیصد پر قائم مقدمات پر عدالتوں میں سماعت جاری ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق 33 فیصد سے زائد اضافی قیدی بھی جیلوں میں رکھے گئے ہیں یعنی پاکستان کی جیلوں میں ان قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش نہیں ہے۔ 60 سال سے زائد عمر کے 1 ہزار 527 افراد 114 جیلوں میں قید ہیں۔
ماؤں کے ساتھ ساتھ 140 نوزائدہ بچے جیلوں میں قید ہیں جبکہ 2 ہزار 100 قیدی مختلف تکالیف اور بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ 10 فیصد جیلیں ایمبولینس سے محروم ہیں۔ 2 ہزار 400 قیدی موذی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ پنجاب میں 66 ایسے افراد کو جیلوں میں قید کی سزا بھگتنی پڑ رہی ہے جو جسمانی طور پر معذور ہیں۔
رہائی کا فیصلہ کیوں؟
سوال یہ ہے کہ اگر ان خواتین نے معمولی جرائم کیے تھے تو ان کو قید کیوں کیا گیا؟ اور اگر وہ مجرم تھیں تو انہیں رِہا کرنے کا فیصلہ کیوں کیا جارہا ہے؟
دراصل قانون کے نفاذ میں رحم جیسی کسی چیز کو مدِ نظر نہیں رکھا جاتا۔ اگر کسی جرم کی سزا عمر قید ہے تو وہ کم ہو کر خودبخود 5 سال یا 10 سال نہیں ہوسکتی، البتہ قانون میں یہ گنجائش ہوتی ہے کہ متاثرہ افراد اگر قاتل یا کسی اور مجرم کو معاف کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔
دوسری جانب جن جرائم کا تعلق حکومت سے ہو، مثال کے طور پر قومی خزانے کو نقصان پہنچانا، بد عنوانی، چوری یا ڈکیتی وغیرہ، ان پر صرف سزا دے دی جاتی ہے۔ اگر جرم سے کسی عام شہری کو نقصان پہنچتا ہے تو یہاں یہ ہوسکتا ہے کہ وہ معاف کردے یا مقدمہ ہی درج نہ کرائے، اِس طرح مجرم سزا سے بچ سکتا ہے۔
تاہم حکومت کی طرف سے رہائی کا فیصلہ خالصتاً انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر کیا جارہا ہے جس کا مقصد جرائم یا جھوٹے مقدمات کا شکار خواتین کو قومی دھارے میں شامل کرنا ہے۔
فیصلے کی اہمیت
ایک مرد کو قید کرنا ایک فرد کو ہی قید کرنا ہے تاہم ایک خاتون کو قید کرنے کا مطلب ایک ماں یا پھر پورے خاندان کو قید کرنے کے مترادف ہے کیونکہ ماں یا بہن کی حیثیت سے ایک خاتون کا معاشرے میں مقام کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
خاص طور پر ایسی خواتین جن کے بچے جیلوں میں پیدا ہوئے اور وزیرِ اعظم کے احکامات پر انہیں رہائی مل جائے ، سوچئے ان کیلئے انسانی ہمدردی کے اِس اقدام کی کیا اہمیت ہوگی۔ وفاقی حکومت کو انسانی ہمدردی کے اظہار کیلئے جیلوں میں سہولیات کی بہتری، بیمار قیدیوں کی رہائی اور دیگر اہم اقدامات پر بھی توجہ دینا ہوگی۔