آئی ایم ایف، تیل کی قیمتیں اور مہنگائی

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سال 2022 پاکستان کے عوام کیلئے مہنگائی کے حوالے سے کوئی خوشی کی نوید نہیں لایا اور عوام کو اس حوالے سے تشویش لاحق ہے کہ بجلی، گیس اور پیٹرول کے لیے رقم کہاں سے آئے گی جبکہ پاکستان کی معیشت کو ہموار کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے نئے دباؤ کی وجہ سے معیشت کو خطرات درپیش ہیں ۔

پاکستان 1950 سے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کا رکن ہے اورادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھنے اور مالیاتی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے حکومت پاکستان بدقسمتی سے ہمیشہ قرضے کا سہارا لیتی ہے اس لیے حکومت نے ایک بار پھر انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کا سہارا لیا ہے۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے قرض لینے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت اپنی بگڑتی ہوئی معیشت، شرح مبادلہ اور ادائیگیوں کے توازن کو مستحکم کرنا چاہتی ہے۔

ڈاکٹر محمد شہباز کے مزید کالمز پڑھیں:

یوکرین روس بحران اور تیل کی منڈیاں

پاکستان میں معاشی کارکردگی کی حقیقت

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے پاکستان کو بائیس مواقع پر قرضے فراہم کیے ہیں۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے ایک ماہ سے زیادہ بات چیت کے بعد پاکستان کے لیے 6 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کو بحال کرنے پر رضامندی ظاہر کی جس سے پاکستان کی مشکلات کا شکار معیشت کو ایک بڑا ریلیف ملے گا ۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کو پیسے کی ضرورت ہے لیکن ماہرین اقتصادیات کو خدشہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی شرائط پاکستانی صارفین کیلئے قیمتوں میں اضافے کا باعث بنیں گی۔

ستمبر 2021 کے آخر میں پاکستان کے کل قرضے اور واجبات ریکارڈ 50اعشاریہ 5 ٹریلین روپے تک پہنچ گئے، جو گزشتہ 39 مہینوں میں 20اعشاریہ 7 ٹریلین کا اضافہ اورملک کے مجموعی قرضوں میں تقریباً 70 فیصد اضافہ ہوا۔

اس سہ ماہی کے اختتام تک پاکستان پر بیرونی قرضہ 118500اعشاریہ 00 امریکی ڈالر ہونے کی توقع ہے اور 2022 میں پاکستان کا کل بیرونی قرض 118500اعشاریہ 00 امریکی ڈالر کے لگ بھگ رہنے کا امکان ہے۔

کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے پاکستان کی جانب سے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے لیا گیا قرض روپے کے لحاظ سے 70 ارب روپے سے بڑھ کر 811 ارب روپے ہو گیا ہے لہٰذا طویل مدت میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا قرض پاکستان اور اس کی معیشت کو سی پیک کے تحت چین سے لیے گئے قرض سے زیادہ تباہ کن اور ظالمانہ طریقے سے نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

آئی ایم ایف کی جانب سے یہ ریلیف قلیل مدتی ہے اور عام طور پر قرض کے پختہ ہونے کے ساتھ ہی ایک نیا بحران پیدا ہوتا ہے اور فیڈرل ریزرو میں ڈالر کی قیمت میں ناکافی اضافے کی وجہ سے حکومت دوبارہ مالیاتی بحران میں پڑ جاتی ہے۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ایسے مقاصد کے لیے بھاری مقدار میں قرضے فراہم کرتا ہے جو کہ مختصر مدت کے تناظر میں پہلی نظر میں بہت منافع بخش اور پرکشش پیشکش معلوم ہوتی ہے۔

اس بیل آؤٹ پیکیج نے پاکستانی حکومت پر کئی شرائط رکھی ہیں جن میں ٹیکس اور سبسڈی، حکومتی اخراجات، شرح سود اور زرمبادلہ کی شرح، بجلی کے ٹیکس میں اضافہ شامل ہے ۔

لیکن بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے پاکستان کے لیے جو سب سے سخت شرط رکھی گئی تھی وہ یہ تھی کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری میں چینی مالیاتی اخراجات کا تفصیل سے حساب کتاب کیا جائے اور یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ پاکستان اپنے چین کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے قرضوں کو نہیں ہٹائے گا۔

تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں تمام ترقی پذیر معیشتوں کے لیے سب سے بڑی پریشانی ہیں اور پاکستان بھی اس کا شکار ہے۔ پاکستان میں تیل کی قیمتیں خاص طور پر ملک میں صارفین کے اخراجات سے متعلق ہیں۔

کنزیومر پرائس انڈیکس کی بنیاد پر پاکستان میں صارفین کے کل اخراجات کا تقریباً 10فیصد(زیادہ بھی ہو سکتا ہے) تیل اور متعلقہ مصنوعات پر خرچ ہوتاہے۔ اس میں بجلی، گیس اور موٹر ایندھن جیسی اشیاء شامل ہیں۔

تیل کی قیمتیں پیداوار اور تقسیم کی لاگت میں اضافے کے ذریعے افراط زر کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ تیل اپنی مانگ میں اضافے کے ساتھ پاکستان میں اقتصادی ترقی کا سب سے نمایاں اشارہ بنتا جا رہا ہے۔نیز تیل کی قیمتیں پاکستان کے جی ڈی پی کو متاثر کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کر رہی ہیں ۔

حکومت نے وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر 16 فروری 2022 سے 28 فروری 2022 تک پاکستان میں پیٹرول کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اضافے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت لوگوں کو ایک ایسے وقت میں ریلیف فراہم کیا گیا ہے جب وہ پہلے سے ہی بڑھتی ہوئی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ اعلامیے کے مطابق پاکستان میں پیٹرول کی قیمت میں 12اعشاریہ 03 روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے جب کہ پاکستان میں ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 9اعشاریہ 53 روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ۔

اس دوران مٹی کے تیل کی قیمت میں صفر اعشاریہ 08 روپے جبکہ لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں 9اعشاریہ 43 روپے کا اضافہ کیا گیا ۔اس سے پاکستان میں پیٹرول کی نئی قیمت 159اعشاریہ 86 روپے فی لیٹر، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 154اعشاریہ 15 روپے فی لیٹر، مٹی کے تیل کی قیمت 126اعشاریہ 56 روپے فی لیٹر اور لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت 123اعشاریہ 97 روپے فی لیٹر ہو گئی ہے۔جس کے بعد وزیراعظم پاکستان نے حال ہی میں پیٹرولیم قیمتوں میں 10 اور بجلی کی قیمت میں پانچ روپے تک کمی کا اعلان کیا اور یہ قیمتیں آئندہ بجٹ تک منجمد رہیں گی۔

جنوری 2022 میں سی پی آئی افراط زر می ںسال کی بنیاد پر 13 فیصد اضافہ ہوا جبکہ پچھلے مہینے (دسمبر 2021) میں 12اعشاریہ 3 فیصد اور جنوری 2021 میں 5اعشاریہ 7 فیصد اضافہ ہوا۔

افراط زر کی وجہ اضافی کرنسی کی چھپائی، زیادہ پیداواری لاگت، بین الاقوامی قرضے، قومی قرضے اور وفاقی ٹیکس ہیں۔ آئی ایم ایف، تیل کی قیمتوں اور افراط زر کے منفی اثرات مرتب ہوں گے اور اس سے افراد اور کمپنیوں کو یکساں نقصان پہنچ سکتا ہے جیسے ذخیرہ اندوزی، بڑھتا ہوا خطرہ، زیادہ غیر یقینی صورتحال اور مقررہ آمدنی حاصل کرنے والوں کو نقصان پہنچے گا۔

یہ نہ صرف قومی بچت کو کم کرے گابلکہ موجودہ قرض دہندگان کو بھی نقصان پہنچے گا جو بدلے میں متعلقہ اشیاء کی قیمتوں کو بگاڑتے ہیں اورٹیکس بریکٹ اور کاروباری زندگی کے سائیکل میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔

رضوان اللہ
اسکول آف مینجمنٹ اینڈ اکنامکس۔
بیجنگ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، بیجنگ، چین۔
ای میل:rezwanullah1990@yahoo.com

Related Posts