ملک میں اس وقت بدترین مہنگائی کا طوفان ڈیرے جمائے بیٹھا ہے اور پی ٹی آئی حکومت ایک کے بعد ایک ہرچیز کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کرتی ہوئی دکھا ئی دے رہی ہے ، موجودہ حکومت اپنے قیام سے اب تک معیشت کی بحالی کی تگ ودو میں مصروف ہے، کشکول توڑنے کی باتیں کرنیوالی حکومت کبھی سعودیہ سے امداد مانگتی دکھائی دیتی ہے کبھی آئی ایم ایف کی کا دروازہ کھٹکھٹاتی نظرآتی ہے۔
حکومتیں آئی ایم ایف سے قرض کی کڑوی گولی اس وقت لیتی ہیں جب ملک میں معیشت کی حالت انتہائی خراب ہوکیونکہ کوئی بھی ملک معاشی حالت کی خرابی ایک حد تک تو برداشت کر لیتا ہے لیکن جہاں انہیں احساس ہو کہ اب معاملہ معاشی عدم استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے تو کسی بھی قیمت پر اس خرابی کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
عالمی مالیاتی فنڈ کے ماہرین جو شرائط نامہ قرض کی رقم کے ساتھ قرض خواہوں کے ہاتھ میں تھماتے ہیں ان شرائط میں فوری طور پر ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے جس سے معاشی عدم استحکام کو ختم کیا جا سکے جبکہ پاکستان سمیت کئی ملکوں کی تاریخ میں ایسا کئی بار ہوا ہے کہ آئی ایم ایف نے ان ممالک کو بحرانوں سے نکالا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان 6ارب ڈالر کا معاہدہ طے پاچکا ہے جس کے تحت آئی ایم ایف تین سال میں پاکستان کویہ رقم فراہم کریگاجبکہ پاکستان نے آئی ایم ایف پروگرام کی پہلی سہ ماہی کے اہداف پورے کر لیے ہیں تاہم جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کو آئندہ برسوں میں بھی مشکلات کاسامنا رہے گا اور شرح نمو متاثر ہونے کی وجہ سے خسارہ بڑھ سکتا ہے۔
جائزہ اجلاس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے بجٹ میں تبدیلیوں ،گیس وبجلی کی قیمتوں میں اضافے، ڈیفالٹرز کے بجلی کنکشن منقطع اور ریونیو بڑھانے کیلئے نیشنل ٹیکس اتھارٹی قائم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات جاری ہیں تاہم آئی ایم ایف نے اپنی ٹیکس شرائط سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا ہے جس کی وجہ سے حکومت نے آئی ایم ایف کو بجلی اور گیس مزید مہنگی کرنے کی یقین دہانی کرادی ہے۔
وفاقی حکومت آئی ایم ایف کے تعاون سے سرکاری اداروں کے لئے نئی قانون سازی کرنے جارہی ہے اس حوالے سے نیا قانون ستمبر 2020 تک مکمل کرلیا جائے گا۔ آئی ایم ایف کی دستاویزات کے مطابق حکومت نے وفاقی اداروں کی اصلاحات پر کام شروع کر دیا ہے جس سے ادارے فعالیت اورشفافیت بڑھے گی یہ مسودہ آئندہ برس پیش کر دیا جائے گا۔
قرض سے مشروط آئی ایم ایف کی کڑی شرائط سے نہ صرف مزید غربت اور بے روزگاری کا باعث بنیں گی بلکہ ملک میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان عوام کو آن گھیرے گا۔بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے سے گھریلوصارفین کے ساتھ صنعتی سرگرمیاں بھی متاثر ہوسکتی ہیں حکومت کو قرضوں کے حصول کیلئے آئی ایم ایف کی شرائط پر مہنگائی بڑھانے کے بجائے مالی شعبے میں اصلاحات کے حوالے سے توجہ فنانسنگ اور نیٹ ورک کے استحکام پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔