آئی ایم ایف سے تاخیر

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین نئے مالی سال 23-2022 کے وفاقی بجٹ پر مفاہمت کو 2 ہفتے گزر جانے کے باوجود عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے قرض کی نئی قسط میں تاخیر کی جارہی ہے۔

نتیجتاً ملک کے معاشی حالات میں سدھار کی امیدیں کمزور پڑ رہی ہیں جبکہ اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کیلئے غیر یقینی صورتحال پیدا ہورہی ہے۔ وفاقی وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل اور آئی ایم ایف مشن کے مابین مذاکرات ویڈیو لنک پر ہوئے تھے۔

ویڈیو لنک مذاکرات کے دوران حکومت اور آئی ایم ایف کی مفاہمت کے متعلق پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ 436ارب روپے مزید ٹیکس کے حصول اور پیٹرولیم لیوی بتدریج 50 روپے فی لیٹر تک بڑھانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔

حیرت انگیز طور پر حکومت نے نہ صرف بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرکے ہر چیز مہنگی کردی بلکہ تنخواہ دار طبقے پر بھی ٹیکس عائد کرکے عوام کو مسائل کی چکی میں پس جانے پر مجبور کیا جارہا ہے تاہم معاشی صورتحال بہتری کی جانب آتی نظر نہیں آتی۔

 ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں اتار چڑھاؤ کا سلسلہ جاری ہے جس سے بالآخر وفاقی حکومت کی معاشی پریشانیوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ آئی ایم ایف اور پاکستان نے اتفاق کیا تھا کہ مالیاتی فریم ورک پر پیشرفت کا بیان جاری کیا جائے گا۔

اعلیٰ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف مشن کو راضی کرنے کیلئے پاکستان نے تمام پی او ایل مصنوعات پر پیٹرولیم لیوی وصول کرنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔ لیوی بتدریج 5 روپے ماہانہ کے حساب سے بڑھاتے ہوئے 50روپے تک لائی جائے گی۔

دوسری جانب حکومت نے تنخواہ داروں پر بھی ٹیکس عائد کرتے ہوئے عوام کی مشکلات میں بھاری بھرکم اضافہ کردیا ہے۔ اضافی تنخواہیں اور پنشن کی دفعات بھی ختم کرنے پر اتفاق کر لیا گیا جس کیلئے 200ارب کی سبسڈی دی گئی تھی۔

اگرچہ پاکستان چینی بینکوں سے بھی 2.3ارب ڈالر وصول کرچکا ہے تاہم آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اس لیے ضروری ہے کیونکہ اس سے قرض فراہمی کے دیگر عالمی اداروں سے پاکستان کی مدد کی راہ ہموار ہوگی۔

وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیرِخزانہ مفتاح اسماعیل کی تصدیق اور یقین دہانیوں کے باوجود آئی ایم ایف کی جانب سے قرض فراہمی میں تاخیر ہورہی ہے۔ آج کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے مزید کون سے مطالبات پورے کرنا ہوں گے۔ 

Related Posts