جدید تمدن کے دیہی امام

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Imams of modern society

مسئلہ تمدن کا ہے۔ اگر آپ خیبر پختون خوا کے دیہات چلے جائیں تو وہاں کے انپڑھ ذہن کے لئے سب سنگین سوال یہ ہے کہ مردے سنتے ہیں یا نہیں ؟ اس کائنات پر انپڑھ کا غور و فکر بس اتنا ہی ہوسکتا ہے اور اس کے نزدیک حل طلب مذہبی الجھن بس یہی رہ گئی ہے۔

چنانچہ اس ماحول کو جو عالم دین درکار ہے اس کے لئے کوئی ضروری نہیں کہ جدید تمدن کا شعور رکھتا ہو۔ اگر وہ سماج ڈھائی تین صدی قبل والے دور میں کھڑا ہے تو وہاں آپ مفتی تقی عثمانی کو بیان کے لئے کھڑا نہیں کرسکتے کیونکہ نہ تو وہ ذہنی سطح مفتی تقی عثمانی کو سمجھنے کی اہلیت رکھتی ہے اور نہ ہی مفتی تقی عثمانی ان کے سامنے بین بجانے کی کامیاب کوشش کرسکتے ہیں۔

اس انپڑھ دیہی سماج کی ضرورت دارالعلوم حقانیہ کا ہی کوئی فاضل پوری کرسکتا ہے۔ بلکہ بطریقہ “احسن” پوری کرسکتا ہے۔ کیونکہ دیہات کےعام انپڑھ آدمی کی طرح یہ مولوی صاحب بھی جدید تمدن اور اس کے مسائل کا شعور نہیں رکھتے۔ سو ان کے نزدیک بھی بنی نوع انسان کے لئے سب سے سنگین سوال یہی ہے کہ مردے سنتے ہیں یا نہیں ؟ یہی وجہ ہے کہ اس ماحول کے علماء اس سوال کے جواب پر زہریلے فتوے بھی داغ دیتے ہیں۔

سو ہمارے نزدیک جس طرح اس دیہی ماحول میں مفتی تقی عثمانی سے بیان کروانا غلط ہوگا بعینہ اس دیہی سماج کے عالم سے کسی جدید شہر میں بیان کروانا بھی حماقت کا درجہ رکھتا ہے۔ اگر عالم سے “کتاب الفضائل” بیان کروانی ہے تو چل جائے گا۔ اس طرح کے علماء کا ہر بیان نماز کے فضان، روزے کے فضائل، صحابہ کے فضائل، اور علماء کے فضائل جیسے موضوعات پر کیوں ہوتا ہے ؟ کیونکہ انہیں بس اتنا ہی آتا ہے۔

جدید دور کے مسائل اور ان کے حل کے لئے ضروری ہے کہ جدید دور کی باقاعدہ تعلیم اگر نہ بھی ہو تو کم از کم اس کا غیر نصابی مطالعہ اور مشاہدہ تو ہو۔ جب وہی نہیں ہے تو سماجی مسائل تو ایسا عالم دین صرف دیہات کے ہی حل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ ایسے میں شہری منبروں کے لئے بچ جاتی ہے صرف کتاب الفضائل جو دیہی پس منظر رکھنے والے ہر مولوی صاحب نے بغل میں دبا رکھی ہے۔

ہمارے مدارس کے طلبہ کی غالب ترین اکثریت دیہات سے پڑھنے آتی ہے۔ ہفتے کے سات میں سے چھ دن وہ مدرسے کے ہاسٹل میں اپنے ہی جیسے دیہی پس منظر والے رفقاء کے ساتھ گزارتے ہیں۔

جمعرات کی عصر سے جمعہ کی مغرب تک ایک دن کی چھٹی ملتی ہے تو اس روز یہ گاؤں والوں کے ڈیرے پر چلے جاتے ہیں۔ گویا شہر میں ہوکر بھی گاؤں والے “مزے” سمیٹ رہے ہوتے ہیں۔ یوں پورا سال کسی جدید شہر میں رہ کر بھی یہ اس شہر کا حصہ نہیں ہوتے۔ یہ نہیں جانتے کہ اس شہر کا طرز حیات، اور مسائل کیا ہیں ؟ شہری انسان کی ترجیحات کیا ہیں، اور دین کی نسبت سے اس کے سوالات کیا ہیں ؟۔

پھر المیہ صرف یہ نہیں کہ مدرسے میں اس کے رفقاء بھی تقریبا سب کے سب دیہی پس منظر رکھنے والے ہیں، بلکہ حد یہ ہے کہ جو اساتذہ ان بچوں کو پڑھا رہے ہیں وہ بھی دیہی پس منظر اور کلچر رکھتے ہیں۔ ایسے اساتذہ بہت ہی کم ہوتے ہیں جو جدید شہری کلچر رکھتے ہوں۔ اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ جو نصاب وہ پڑھ رہے ہوتے ہیں اس کی کتب کم از کم بھی ڈھائی سو سال قبل لکھی گئی ہیں۔

چنانچہ جب کوئی شہری بابو ان سے پوچھتا ہے کہ کتنی نجاست سے کپڑا ناپاک ہوتا ہے ؟ تو یہ جواب میں ماشوں کا حساب کتاب بتانے لگتے ہیں۔ اور شہری بابو سوچتا ہے، اچھا تو اب نجاست تلوانے کے لئے سنہار کے پاس جانا پڑے گا۔ کیونکہ ماشے تولنے والا ترازو تو اسی کے پاس ہوتا ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ درس نظامی کا 99 فیصد نصاب ان کتب پر مشتمل ہے جو سرے سے “درسی کتب” ہی نہیں ہیں ؟چنانچہ نتیجہ یہ ہے کہ استاد کی 90 فیصد محنت پورا سال اس بات پر ہوتی ہے کہ مصنف کہنا کیا چاہتا ہے ؟ وہ روز پینتالیس منٹ فی پیریڈ اس گتھی کو سلجھانے پر لگاتا ہے کہ مصنف کی مراد کیا ہے ؟ اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بتایئے جس مصنف کی عبارت اتنی غیر فصیح ہو کہ اصل علم کو چھوڑ کر استاد کو یہ زور آزمائی کرنی پڑ رہی ہو کہ مصنف کہنا کیا چاہتا ہے ؟ کیا ایسی کتاب کو نصاب میں رکھا جاسکتا ہے ؟ حد یہ ہے کہ ابھی حال ہی میں وفاق المدارس نے نے اپنے نصاب میں مولانا ابو الحسن علی ندوی مرحوم کی عام قارئین کے لئے لکھی اردو کی ایک کتاب کو شامل کیا ہے۔

کیا یہ کتاب مولانا ندوی نے ٹیکسٹ بک کے طور پر لکھی ہے ؟ قطعا نہیں۔ جس کتاب کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ ” مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش” ہے۔ نام کی طوالت سے گھبرایئے گا مت۔ بلکہ شکر ادا کیجئے کہ اردو زبان میں لکھی اس کتاب کا نام اردو میں ہی ہے۔ ورنہ اس کرہ ارض پر یہ کارنامے ہمارے دیہی پس منظر کے علماء نے ہی انجام دے رکھے ہیں کہ کتاب اردو زبان میں ہے اور نام عربی زبان میں۔

بطور مثال کچھ اصل کتب کے نام بتا دیئے تو اکابر کے گستاخ قرار پائیں گے۔ سو ایک فرضی نام “بندوق الصادقین فی صندوق الفاحشین” پر گزارا کر لیجئے۔ ایسے ہی ہوتے ہیں ہمارے علماء کی اردو زبان میں لکھی کتب کے نام۔مولانا ندوی کی کی مذکورہ کتاب پر ہمارے اور بھی کئی تحفظات ہیں مگر اسے نصاب میں شامل نہ کرنے کے لئے اتنی ہی بات کافی ہے کہ یہ ٹیکسٹ بک نہیں ہے۔

دیہی پس منظر رکھنے والے طالب علم، دیہات کا ہی پس منظر رکھنے والے اساتذہ، اور نصاب وہ جو صدیوں پرانی ان کتب پر مشتمل جو سرے سے درسی کتب ہی نہیں ہیں۔ سو یہ سہ آتشہ خوبیاں رکھنے والے فاضل درس نظامی جب کراچی، لاہور یا پشاور کی مسجد کے منبر پر بیان کرنے بیٹھیں تو انصاف سے بتایئے نتیجہ کیا نکلے گا ؟ یہی کہ لوگ جمعہ پڑھنے عین اس وقت آئیں گے جب مولوی صاحب کے غیر ابلاغی بیان پر وما علینا الا البلاغ کی مضحکہ خیز مہر ثبت ہو جائے۔ مردے سنتے ہیں یا نہیں جیسے سوال کو چیلنج سمجھنے والے ایسے مولوی صاحبان سے ہم اس کے سوا کہہ بھی کیا سکتے ہیں حضرت ! آپ کو توزندے بھی نہیں سنتے۔
کبھی غور کیا کہ کیوں ؟

Related Posts