بلدیہ عظمیٰ کراچی میں ایک ارب روپے کے ٹینڈرز کی بندر بانٹ کا انکشاف

مقبول خبریں

کالمز

zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب
Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بلدیہ عظمیٰ کراچی میں ایک ارب روپے کے ٹینڈرز کی بندر بانٹ کا انکشاف
بلدیہ عظمیٰ کراچی میں ایک ارب روپے کے ٹینڈرز کی بندر بانٹ کا انکشاف

کراچی:شہر قائد کے ترقیاتی کاموں کیلئے بلدیہ عظمیٰ کراچی میں ایک ارب کے ٹینڈرز کی بندر بانٹ کا انکشاف ہوگیا۔ وفاق کے نمائندے کے ایم سی کے اعلیٰ عہدیداروں میں 6 چھ فیصد، ڈائریکٹر جنرل انجینئرنگ کے 2 فیصد اور ایک فیصد فنانس افسران کو، اس طرح ایک ارب کے ٹھیکوں کا 15 فیصد مبینہ طور پر ٹھیکہ دینے کی مد میں طلب کیا گیا ہے۔ جو 15 کروڑ روپے بنتا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ مبینہ 15 کروڑ روپے صرف ٹینڈر ایوارڈ کرنے کی مد میں ہیں۔ اس طرح کراچی پیکیج کے تحت وفاق سے ملنے والے ایک ارب آپس میں بانٹ لئے گئے۔

باخبر ذرائع کے مطابق ترقیاتی کام ٹینڈرز کی الاٹمنٹ جعلی قرعہ اندازی کرکے من پسند ٹھیکیداروں کو کردی گئی، کے ایم سی محکمہ انجینئرنگ کے ڈی جی اقتدار احمد نے ٹینڈرز بغیر کسی صحت مند مقابلے کے ایوارڈ کردئیے۔ جس سے کے ایم سی کے ٹھیکیداروں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ اور آئندہ دنوں میں شدید احتجاج کا امکان ہے۔

کراچی میں ترقیاتی منصوبے کے لیے وفاقی حکومت نے 5 ارب روپوں میں سے پہلی قسط کے طور پر ایک ارب روپے فنڈ جاری کیے ہیں۔ اگر باقی کے 4 ارب میں بھی گھپلا ہوا تو اس کانقصان کراچی کے شہریوں کو ہی ناقص اور گھٹیا طرز تعمیرات کی شکل میں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ انجینئرنگ بلدیہ عظمیٰ کراچی نے ٹھیکیداروں سے بھاری کمیشن کے عوض معاملات طے کرکے ایک ارب روپوں کے 9 ترقیاتی منصوبے پرچی اور قرعہ اندازی کے ذریعے مند پسند ریٹس پر الاٹ کردئیے۔

یہ تمام غیر قانونی کام میئر کراچی اور میٹرو پولیٹن کمشنر کے علم میں لانے کے بعد ان کی مشاورت سے ڈی جی اقتدار نے انجام تک پہنچائے۔ واضح رہے کہ متعلقہ ٹھیکیداروں کی بغیر شمولیت کے جعلی قرعہ اندازی پر ”سیپرا” نے بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کر کے سارے معاملے ک مشکوک بنا دیا ہے۔

میئر کراچی وسیم اختر اور ورکس کمیٹی کے چیئرمین حسن نقوی فریئر ہال سے براہراست مانیٹرنگ کرتے رہے، 1 ارب روپے مالیت کے ٹینڈرز کو کھولنے کی تاریخ بار بار تبدیل کی جاتی رہی، ٹینڈر اجرا کا التوا ٹھیکیداروں سے کمیشن کے معاملات طے نہ ہوپانا بتایا جارہا ہے۔

Related Posts