میں رقص کروں گی،کوئی مجھے روک نہیں سکتا ہے، شیما کرمانی

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

‘I will dance and no one can stop me’ says Sheema Kermani

مظلوم خواتین کو بااختیار بنانے اور ناانصافی کے خلاف جنگ کو اپنی زندگی کا مقصد بنانے والی نامور کلاسیکل ڈانسر نے نفرت پھیلانے والوں  اور لعل شہباز قلندر کے مزار پر دہشت گردی کی واردات میں 85 افراد کی جان لینے والوں کواپنے رقص کے ذریعے امن کا پیغام دیا۔
ایک سماجی کارکن اور تحریک نسواں کی بانی کی حیثیت سے انہوں نے عورت مارچ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے اس کامیاب سفر کا احوال پیش خدمت ہے۔

ایم ایم: کلاسیکل رقص کی طرف کس چیز نے راغب کیا؟

شیما کرمانی: کلاسیکل رقص کا رجحان اپنی والدہ کو دیکھ کر پیدا ہوا،میرے نانا حیدرآباد دکن میں رہائش پذیر تھے اور میری والدہ گرمی کی تعطیلات میں اپنے والدین سے ملنے کے لئے 1965 ء کی جنگ تک بچوں کو لے کر حیدرآباد جاتی تھیں۔یہاں ایک استاد گھر میں میری والدہ اور انکی بہنوں کو کلاسیکل ڈانس سکھانے آتا تھا، میری والدہ کئی سالوں تک اس کی مشق کرتی رہیں ، یہاں سے میرے کلاسیکل رقص کی طرف رجحان کی ابتدائی ہوئی۔
تاہم تیرہ سال کی عمر تک میرے والدین چھوٹے شہروں اور چھاؤنیوں میں مقیم رہے جہاں رقاص اساتذہ موجود نہیں تھے۔ جب ہم 1964 میں کراچی میں مقیم تھے تو میری والدہ کو ایک جوڑے مسٹر اور مسز گھنشام مل گئے جن کا ایک انسٹی ٹیوٹ تھا جہاں کلاسیکل آرٹس پڑھایا جاتا تھا اور مجھے ان کے ساتھ کلاسیکل ڈانس سیکھنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔میں نے اپنے اسکول کی تعلیم مکمل کی اورجب میں لندن کے آرٹ کالج میں رہنے کے بعد واپس آئی تو سنجیدگی سے پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کی۔ تب میں نے مزید اسباق کے لئے ہندوستان جانے کا فیصلہ کیا۔
یہ 1980 کی دہائی کے اوائل کی بات ہے اور جنرل ضیاء الحق کے دورمیں اسٹیج یا کسی بھی میڈیا پر خواتین کے رقص پر پابندی عائد تھی لیکن میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں ناچوں گی اور کسی کو بھی روکنے کا حق نہیں ہے!۔

ایم ایم: کیا آپ نے کبھی بھی اپنی پرفارمنس پر کسی قسم کے ردعمل کا سامنا کیا ہے اور آپ نے اس سے کیسے نمٹا؟

شیما کرمانی: میں گھنشام کے گروپ کے ساتھ پرفارم کرتی رہی یہاں تک کہ انہیں 1983 میں ڈانس پر پابندی کے سبب پاکستان چھوڑنا پڑاتاہم میں نے رقص جاری رکھا اورساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی برقرار رہااور تقریباً ایک دہائی تک میں پاکستان میں واحد ڈانسر تھی کیونکہ باقی سب ملک چھوڑ چکے تھے۔ہمارا معاشرہ ’اسلامائزیشن‘ سے گذر رہا تھا اس لئے رقص پر پابندی تھی اور کسی بھی عوامی کارکردگی کے لئے کسی کو این او سی نہیں ملتا تھا، اور جب بھی میں نے یہ کام کیا میری جان کو خطرات لاحق ہوئے، ان دنوں میں مجھے بہت ساری دھمکیاں ملتی تھیںآج تک یہ سلسلہ جاری ہے ۔

ایم ایم: وہ ایک لمحہ یا شخص جس نے آپ کو حقوق نسواں کیلئے آواز اٹھانے کی تحریک دی؟

شیما کرمانی: جب میں اپنی تعلیم کے بعد پاکستان واپس آئی تو میں سب سے زیادہ مظلوموں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی تھی اور میں نے پایا کہ سب سے زیادہ مظلوم پاکستان کی محنت کش طبقے کی خواتین تھیں۔ لہٰذا میں نے ان کے ساتھ کام کرنا شروع کیا اور انہیں ٹریڈ یونینز میں منظم کیا۔
اس دوران میں نے محسوس کیا کہ خواتین کبھی بھی جلسوں میں بات نہیں کرتی تھیں اور ان کی نہ صرف تعداد بہت کم تھی بلکہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتاتھا اور اسی وجہ سے میں نے تحریک نسواں کو ایک سیاسی عمل کے طور پر بااختیار بنانے کی تحریک شروع کی اور خواتین کو اپنے حقوق کے لئے کھڑے ہونے اور جدوجہد کرنے کی ترغیب دی۔

ایم ایم: تحریک نسواں کی آج تک کی سب سے بڑی کامیابی کیا ہے؟

شیما کرمانی: تحریک نسواں کا آغاز 1979 میں ہوا تھا اور ابتدا ہی سے اس نے خواتین اور پسماندہ طبقات کو حقوق کے پیغامات دینے کے لئے پرفارمنگ آرٹس کو استعمال کیا ہے۔ ان 40 سالوں میں تحریک نے بہت کچھ حاصل کیا ہے ، شاید سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ آج ’خواتین کے حقوق‘ کی اصطلاح سب کی زبان پر ہے اور یہ حقیقت ہے کہ آج خواتین کھڑی ہو کر اپنے حقوق کا مطالبہ کررہی ہیں۔ چالیس سال پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ ممکن ہوگا۔

ایم ایم: فنکاروں کے بارے میں لوگوں میں تین سب سے بڑی غلط فہمیاں کیاہیں؟

شیما کرمانی: میرے خیال میں فنکاروں کے بارے میں پہلی غلط فہمی یہ ہے کہ فنکار اور فن معاشرے کے لئے اہم نہیں ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ فنکار اور فن معاشرے کا سب سے اہم پہلو ہیں۔ فنکاروں کے بغیر معاشرہ ایک مردہ معاشرہ ہے۔

فنکاروں کے بارے میں دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ انہیں پیشہ ورانہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، یعنی انہیں مفت پرفارم کرنا چاہئے! ۔آج بھی مجھ سے اکثر کہا جاتا ہے کہ میں اپنی پرفارمنس کی فیس وصول نہ کروں جبکہ لوگ کھانے کے لئے بہت زیادہ رقم ادا کرنے پر راضی ہیں ، وہ آرٹ اور فنکاروں کے لئے قیمت ادا کرنے کو تیار نہیں ہیں،اس کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

تیسرا مجھے لگتا ہے کہ معاشرے میں فنکاروں کی جگہ کے بارے میں ایک بہت بڑی غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ فنکاروں کو معاشرے میں اب بھی کم عزت دی جاتی ہے۔ میرے استاد نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ یہ معاشرہ فنکاروں کو رقم اور عزت دینے کیلئے تیار نہیں ہے۔

ایم ایم: کیا پاکستان میں ’تھیٹر‘ اور ’ڈانس‘ مرنے والا فن ہے ، اگر ایسا ہے تو اسے کیسے زندہ کیا جاسکتا ہے؟

شیما کرمانی: ہاں ، مجھے یقین ہے کہ پاکستان میں تھیٹر اور رقص مرتے ہوئے فنون ہیں۔ واقعتاً پاکستان نے کبھی بھی ان فنون کو قدر نہیں سمجھا لیکن اس وقت مذہبی تعصب ، بنیاد پرستی اور فحاشی کے عروج کے ساتھ ہی یہ صورتحال اور بھی خراب ہوتی چلی گئی ہے۔
جب معاشرہ زیادہ سے زیادہ مادیت کی طرف بڑھتا ہے تو زندگی کے بہتر پہلوؤں کو نظرانداز کردیا جاتا ہے اور پیسہ ، دولت اور طاقت سب سے اہم ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ لوگ بغیر محنت اور پسینے کے سب کچھ چاہتے ہیں۔ کلاسیکل آرٹس کو راتوں رات نہیں حاصل کیا جاسکتا ، سالوں کی لگن اور استقامت کی ضرورت ہے۔
یہ اقدار موجودہ پاکستان میں کھو چکی ہیں ۔ ان فنون کی بحالی کا مطلب ریاست اور حکومت کی جانب سے ان فنکاروں کی حمایت حاصل کرنے کی ایک کوشش ہوگی جو خود ہی آگے بڑھ رہے ہیں ، آڈیٹوریم بنا رہے ہیں ۔

ایم ایم: پاکستانی فلموں اور ڈراموں میں خواتین کی عکاسی کے بارے میں آپ کے خیالات کیا ہیں؟

شیما کرمانی:  مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان میں کوئی فلم انڈسٹری ہے جس کے بارے میں بات کی جائے۔ جہاں تک ٹی وی ڈراموں کی بات ہے ، خواتین کی عکاسی قابل رحم ہے ۔
خواتین کی 2 اقسام ہیں:
1- نیک پروین جوگالیاں سن کر اور مار کھاکر بھی اپنے شوہر کی پوجا کرتی ہے۔
2- دوسری وہ جو باہر جاکر کام کرتی ہیں اور ان کو بری عورت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
ٹی وی ڈراموں میں کبھی بھی ہمارے ملک کی اصل عورت نہیں دکھائی جاتی ، وہ محنت کش عورت جو وقار کی زندگی گزارنے کے لئے جدوجہد کرتی ہے ، وہ عورت جو پاکستان کی خواتین کے خوابوں کی نمائندگی کرتی ہے اس کو بھی ٹی وی پر نہیں دکھایا جاتا۔

ایم ایم: اس سال عورت مارچ کے پیچھے کامیابی کا عنصر کیا تھا اور اگلے سال ہم کیا توقع کرسکتے ہیں؟

شیما کرمانی: ہم نے عورت مارچ مارچ 2018 میں شروع کیا تھا ، اس سال تیسرامارچ تھا ،نہ صرف اس میں شریک افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ اس کے اثرات نے اسٹیبلشمنٹ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پارلیمنٹ ، اسمبلیاں ، میڈیا اور دیگراداروں کو عورت مارچ کے اثرات کو تسلیم کرنے پر مجبور کردیاہے اور ہم توقع کرتے ہیں کہ یہ اور زیادہ موثر ہوگا۔

ایم ایم:شادی کے بغیر عورت کی زندگی کو نامکمل کہنے والوں کو کیا کہیں گی؟

شیما کرمانی: میں یہ کہوں گی کہ ہر عورت کا یہ حق ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ وہ شادی کرنا چاہتی ہے یانہیں۔ میں ذاتی طور پر مانتی ہوں کہ شادی یقینی طور پر بالکل ختم نہیں ہونی چاہیے بلکہ خواتین کو اپنی زندگی کے بارے میں فیصلہ کرنے کے حق کے ساتھ اپنی پوری صلاحیت کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حق ہے۔

ایم ایم: ایک چیز جوہر عورت کو ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے؟

شیما کرمانی: ہر عورت کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ اہم ہے ، وہ مضبوط ہے ، اور کسی کو بھی حق نہیں ہے کہ وہ اس پر جبر کرسکے اور اسے اپنی زندگی کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہونا چاہئے۔
خواتین کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ طاقت ان کے اندر موجود ہے اور ایک بار جب وہ اس اندرونی طاقت کے بارے میں جان لیں گی تو کوئی بھی چیز انھیں اپنی زندگی کے بارے میں فیصلہ کرنے سے نہیں روک سکے گی۔

Related Posts