انسانی اسمگلنگ اور اعضاء کی مکروہ تجارت

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستانی عوام کیلئے انسانی اسمگلنگ اور اعضاء کی تجارت کوئی نئی اصطلاح نہیں ہے۔ حال ہی میں پنجاب پولیس نے کئی ایسے مشتبہ افراد کی گرفتاری کا اعلان کیا ہے جن پر اینٹوں کے بھٹہ مزدوروں کے گردے نکالنے کا الزام ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ غریب مزدوروں کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مجرموں نے انہیں روزگار دلانے کا لالچ دیا اور پھر جعلی ملازمتوں کے لیے ضروری ‘میڈیکل ٹیسٹ’ کروانے کے بہانے انہیں راولپنڈی لے جایا گیا۔ حالات سے ناواقف غریب مزدور نہیں جانتے تھے کہ یہ ان کے اعضاء کو غیر قانونی طور پر نکالنے کی چال ہے۔ پولیس حکام کے مطابق ان مزدوروں کو اس ‘میڈیکل ٹیسٹ’ کے بعد ‘روزگار’ کا معمولی معاوضہ دے کر رخصت کردیا گیا، بعد میں انہیں علم ہوا کہ انہیں تو گردوں سے ہی محروم کر دیا گیا ہے۔

اکتوبر میں اسی طرح کی ایک کارروائی میں ایک اور گینگ جس کی قیادت ایک بدنام سرجن کر رہا تھا کو بھی قانون کی گرفت میں لیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ بدنام زمانہ ڈاکٹر پہلے بھی ان دھندوں میں متعدد گرفتار ہوچکا ہے، مگر ہر بار یہ آرام سے قانون کی گرفت سے آزاد ہوتا رہا۔

پنجاب کے نگراں وزیر اعلیٰ نے انکشاف کیا کہ اس گینگ نے مقامی لوگوں سے گردے کی پیوند کاری کے لیے 30 لاکھ روپے وصول کیے، جبکہ غیر ملکیوں سے 10 ملین روپے اس گینگ نے کمائے۔ گینگ کی گرفتاری سے گردوں کی خریدوفروخت کے بڑے ریکٹ کا سراغ ملا۔

خدا خوفی سے عاری یہ ظالم لوگ معاشرے کے سب سے کمزور طبقات کو نشانہ بناتے ہیں۔ بعض صورتوں میں متاثرین کے علم میں لائے بغیر ان کے اعضاء کاٹ لیے جاتے ہیں، جبکہ کچھ واقعات میں غریب لوگ ان کے جھانسے میں آکر اپنی مرضی سے معمولی رقم کے عوض اپنے انمول اعضاء ان کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ قرض کے بوجھ تلے دبے ہوتے ہیں اور ان کا تعلق معاشرے کے غریب ترین طبقے سے ہوتا ہے۔

اس قابل مذمت دھندے میں ملوث گروہوں کا قلع قمع کرنے کے لیے ملک گیر کارروائیاں جاری رہنی چاہئیں۔ اگرچہ پاکستان نے ‘ٹرانسپلانٹ ٹورازم’ کے لیے پرکشش مقام ہونے سے خود کو محفوظ رکھنے میں بڑی حد تک پیش رفت کی ہے، لیکن اس ضمن میں اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ صحت کے اداروں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوجداری نظام انصاف کو ان استحصالی نیٹ ورکس کو ختم کرنے کیلئے ایک مربوط میکینزم قائم کرنا چاہئے۔

Related Posts