صحتمند معاشرے کا خواب کیسے پورا ہوگا؟؟؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 انسانی زندگی میں کھیل انتہائی اہمیت کا حامل ہے،کھیلو ں سے جہاں  ہمیں تفریح ملتی ہے، وہیں  کھیل دل کے ساتھ ہمارے جسم کیلئے بھی معاون ہوتے ہیں، کھیلو ں سے جسمانی طاقت کی بھی نشوونما ہوتی ہے،ورزش اور کھیل سے بچے کی ذہنی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔

پچھلے دنوں ایک اخباری خبر نظروں سے گزری کہ کسی کالج میں لڑکیوں کے انٹرکالجیٹ رسہ کشی کے مقابلوں کا انعقاد کیا گیا ہے، یوں تو یہ ایک معمول کی خبر تھی لیکن جہاں لڑکیوں کے مقابلوں کے انعقاد پر خوشی ہوئی وہیں ایک خوشگوار حیرت نے آگھیرا کہ انٹرکالجیٹ رسہ کشی کا مقابلہ تھا توتمام کالجوں کو دعوت نامہ کیوں نہیں بھیجا گیا۔اگر انٹرکالجیٹ مقابلہ کروانا ہے تو اس کو نمایاں تو کریں کیونکہ اگر چار لوگوں نے آپس میں ہی مقابلہ کرنا ہے تو اس کو انٹرکالجیٹ ایونٹ کہنا زیادتی ہے۔

ایونٹ میں شریک 2یا4 کالجوں نے اپنے طلبہ کو مقابلے میں اتار کرمحض فوٹو سیشن کروایا تو اس کو ٹورنامنٹ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اگر ٹورنامنٹ ہوتا تو تمام کالجز کو معلوم تو ہوتا اور اگر وسائل کی کمی تھی تو اس کو زون کی سطح پر بھی کروایا جاسکتا تھا ۔ اس وقت سندھ میں اسپورٹس کلچر عام کرنے کی اشد ضرورت ہے اور خاموشی کے ساتھ چند اداروں کے مقابلے کھیلوں کے فروغ میں بڑی رکاوٹ ہیں کیونکہ جب تک مقابلوں کی درست تشہیر نہیں ہوگی تب تک آپ طلبہ کو راغب نہیں کرسکتے۔

کچھ عرصہ قبل ان دنوں ہم ٹورنامنٹس اور ٹیمیں بنانے کی تیاری کیا کرتے تھے لیکن اب انٹربورڈ آفس کی خاموشی کی وجہ سے ہر طرف ہوکاعالم ہے اور کوئی کھیلوں کے مقابلے نہیں ہورہے ۔میٹرک اور انٹربورڈ کے کھیلوں سے طلبہ کو مثبت سرگرمیوں کی طرف ناصرف راغب کیا جاتا تھا بلکہ ان کی تربیت بھی کی جاتی تھی لیکن بورڈز کی عدم دلچسپی کھیلوں کے زوال میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔

آج نوجوان نسل موبائل فون سے باہر نکلنے کیلئے تیار نہیں اور اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں کیونکہ جب تک ہمیں ان کیلئے مواقع پیدا نہیں کرینگے تب تک ان کے اندر شوق بیدار نہیں ہوگا۔ ہمیں اپنے بچوں کو ذہنی اور جسمانی طور پر چست اور تندرست بنانے کیلئے ان کیلئے تعلیمی اداروں  میں کھیلوں کا انعقاد کرنا ہوگا تاکہ ہمارے بچے موبائل فون سے نکل کر میدان میں ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں اور کالجز میں ہونیوالے مقابلے چاہے کسی بھی سطح پر ہوں ان کی تشہیرلازمی ہے۔

اسکولز اور کالجز میں ہونیوالے کھیلوں کا سلسلہ تعلیمی اداروں سے نکل کر عالمی مقابلوں تک جاتا ہے ۔ کالجز کے مقابلوں میں جیتنے والے مبارکباد کے مستحق ہیں اور جن کو شکست ہوئی ان کیلئے مستقبل کیلئے نیک تمنائیں ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوان نسل کیلئے زیادہ سے زیادہ کھیلوں کے مواقع ہوں کیونکہ طلبہ اسکول یا کالج میں ہونیوالے کھیلوں کو اپنے گھروں تک پھیلاتے ہیں اور آگے چل کر یہی بچے ملک کا مثبت تشخص اجاگر کرتے ہیں۔

اگرانٹرکالجیٹ مقابلے بھی ایک دویا چار کالجز کے درمیان ہونے لگے تو یہ ایساہی ہوگا کہ جیسے کچھ نجی کالجز اپنی مختلف برانچز کے درمیان آپس کے مقابلے کرواکر اپنے طلبہ کو سامنے لاکر مقابلے ختم کردیتے ہیں لیکن اس طرز کے مقابلوں سے ملکی یا عالمی سطح کے کھلاڑی نہیں بن پاتے کیونکہ نجی اسکولز یا کالجز اپنی لیگز اور پوائنٹس کیلئے منعقد کئے جانے والے مقابلوں سے طلبہ کو فائدہ ہوتا ہے نہ کھیل کو فروغ ملتا ہے بلکہ کالجز اپنے کاغذوں کا پیٹ بھرنے کیلئے کاغذی مقابلے کرواکر اپنا فروض پورا کرلیتے ہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ اسکول اور کالجز کی سطح پر کھیلوں کے مقابلوں کی سرپرستی کرے اور ملک میں اسپورٹس کلچر کے فروغ کیلئے پالیسی ترتیب دی جائے تاکہ نوجوان نسل کو سماجی برائیوں سے روک جاسکے اور مستقبل کے معماروں کی ذہنی وجسمانی صحت کامحفوظ بنایا جاسکے لیکن اگر سرکاری کالج بھی چھپ چھپا کر کھیلوں کا انعقاد کرینگے تو اس سے کھیلوں کا فروغ ناممکن ہے کیونکہ مناسب تشہیر نہ ملنے کی وجہ سے طلبہ میں شوق پیدا نہیں ہوگا اور جب شوق پیدا نہیں ہوگا تو وہ کھیلوں کیلئے آگے نہیں آئیں گے اور ہمارا صحت مند معاشرے کے قیام کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔

Related Posts