وزیر اعظم عمران خان نے پیر کے روز لاہور میں دنیا کے سب سے بڑے” میاواکی اربن فاریسٹ” کا افتتاح کرتے ہوئے کہا ہے کہ قوم کی آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے “سرسبزوشاداب اور بہتر” پاکستان چھوڑ کر جائیں گے۔
10 بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کے تحت شروع کیا گیا یہ جنگل 100 کنال سے زائد رقبے پر پھیلا ہوا ہے، اور اس میں 1 لاکھ 65 ہزار پودے لگائے گئے ہیں، یہ ایک منفرد قسم کا جنگل ہے جہاں پودے عام رفتار کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ تیزی سے بڑھیں گے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان 7ویں نمبر پر ہے۔ ہمارے ملک پر موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات پہلے ہی سے واضح ہیں۔ مثلاً بڑھتا ہوا درجہ حرارت ، بڑے سیلاب اور طویل خشک سالی۔
تاہم تحریک انصاف کی حکومت نے موسمیاتی چیلنج سے نمٹنے کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں۔ عمران خان کا 2014 میں شروع ہونے والا بلین ٹری سونامی پروگرام ، پورے پاکستان کو کور کرنے کے لیے دس بلین ٹری سونامی پروگرام میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے ’پروٹیکٹو ایریا انیشیایٹو‘ شروع کرنے کا بھی اعلان کیا تھا جس کے تحت ملک کے تمام “فیڈریٹنگ یونٹس” میں 15 نیشنل پارکس تعمیر کیے جائیں گے۔
اقوام متحدہ کا ’’خاموش‘‘ انتباع
موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے پینل نے پیر کے روز ایک رپورٹ جاری کی جس کے تحت گلوبل وارمنگ خطرناک حد تک کنٹرول سے باہر ہونے کے قریب ہے اور اس کا ذمہ دار انسانوں کا “غیر سنجیدہ” رویہ قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ” گرین ہاؤس گیسز کا ایک بڑا حصہ ہماری آب و ہوا میں شامل ہو گیا ہے ، اس لیے اب صدیوں نہیں دہائیوں میں موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔” دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ خطرناک گرمی کی لہر ، مہلک سمندری طوفان اور دیگر موسمیاتی تبدیلیاں شدت سے وقوع پذیر ہوں گی۔
رپورٹ کے مطابق صرف پیر کے روز 5 لاکھ ایکڑ پر پھیلا کیلیفورنیا کا جنگل جل کر راکھ ہوگیا جبکہ وینس کے دریا کا پانی سینٹ مارک اسکوائر کے مقام پر مزید گہرائی میں چلے گیا ہے۔
بیرونی موسمیاتی تبدیلیوں کا پاکستان پر کیا اثر پڑے گا؟
گلوبل وارمنگ کے اثرات دنیا بھر میں پھیل رہے ہیں اور پاکستان بھی اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ پاکستان کے لیے اس کے نتائج کئی گنا زیادہ ہیں۔
پاکستان کو یا تو مسلسل خشک سالی یا اچانک بھاری بارش کا سامنا کرنا پڑے گا جیسا کہ ہم نے گزشتہ سال کراچی میں دیکھا تھا۔ موسمیاتی تبدیلیاں بارش کے سالانہ طے شدہ نظام کو متاثر کریں گی۔ اسی طرح ایک دو دن میں چھ ماہ کے برابر بارش ہوسکتی جس سے شہری اور دیہاتی زندگی بالکل مفلوج ہو سکتی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی پاکستان کو دو طرح سے متاثر کرسکتی ہے۔ ایک طرف بھاری بارش گندم ، چاول ، گنے ، مکئی اور کپاس جیسی بڑی فصلوں کو تباہ کرسکتی ہے جیسا کہ سندھ کے اندرونی علاقوں میں ہوا۔ دوسری طرف سالانہ موسم کے بدلتے نظام کی وجہ سے ہمارے کسان سالانہ بارش ، سردی اور گرمی کا صحیح اندازہ لگانے سے قاصر رہیں گے اور اس طرح زراعت کے شعبے سے کنارہ کشی اختیار کرلے گی۔
گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں گلیشیر پگھل جائیں گے۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں برف سے لیس پہاڑوں کا ایک طویل سلسلہ موجود ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 7 ہزار 253 برف سے ڈھکے پہاڑے موجود ہیں۔ اس کی وجہ سے سمندر کی سطح میں اضافہ ، لینڈ سلائیڈنگ ، برفانی تودے اور گلیشیئرز جھیل کے آتش فشاں سیلاب کی صورت بن سکتے ہیں۔
اسی طرح دنیا کی دو بڑی ایجنسیوں نے اپنی رپورٹ “Climate Risk Country Profile” میں پاکستان کو خطرناک ترین ممالک میں شامل کیا ہے۔