بین الاقوامی تجارت کی دنیا میں امریکی ٹیرف کے نفاذ نے ایک نئی ہلچل مچا دی ہے۔ خاص طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کینیڈا، میکسیکو اور چین سے درآمد کی جانے والی مصنوعات پر بھاری محصولات عائد کرنے کے بعد عالمی منڈی میں ایک نیا خلا پیدا ہوا ہے۔
یہ پالیسیاں اگرچہ متنازعہ قرار دی جاسکتی ہیں اور کینیڈا سمیت دیگر ممالک ان پابندیوں کے خلاف صف آراء بھی نظر آتے ہیں، لیکن پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ ایک سنہری موقع بھی فراہم کرتی ہیں کہ وہ ان مصنوعات کی جگہ لے جو اب مہنگی ہونے کے سبب امریکی مارکیٹ میں مشکلات کا شکار ہیں۔یقیناً پابندیوں کا یہ نفاذ پاکستان جیسے ملک کیلئے کسی سنہرے موقعے سے کم نہیں۔
امریکی ٹیرف کے نفاذ نتیجے میں خاص طور پر کینیڈا سے درآمد کی جانے والی گاڑیاں اور دیگر اشیاء مہنگی ہوگئی ہیں، جس نے پاکستانی مصنوعات کے لیے ایک شاندار موقع پیدا کیا ہے۔ خوردنی اشیاء اور چھوٹے صنعتی پرزہ جات، جو پہلے چینی اور کینیڈین کمپنیوں کی اجارہ داری میں تھے، اب پاکستان جیسے ملک کے لیے ایک نئی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ چونکہ صارفین ہمیشہ قابلِ خرید، سستی اور معیاری مصنوعات کی تلاش میں ہوتے ہیں، اس لیے پاکستان اپنی برآمدات کو اس خلا میں جگہ دینے کے لیے ایک مثالی حیثیت حاصل کرسکتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی امریکہ نے درآمدی محصولات میں اضافہ کیا، تو اس کا دوہرا اثر سامنے آیا: ایک طرف امریکی صنعتوں کو استحکام ملا تو دوسری جانب بین الاقوامی سپلائرز کے لیے نئے مواقع پیدا ہوئے۔ 1789، 1816، 1930 اور 1945 میں نافذ کیے گئے ٹیرف امریکی مارکیٹ میں نئے مواقع کا باعث بنے۔ آج بھی صورتحال مختلف نہیں ہے؛ پاکستان ان مصنوعات کی برآمدات کا موقع حاصل کرکے اپنی صنعتی اور اقتصادی حیثیت کو مستحکم کر سکتا ہے۔
پاکستان کے لیے دیگر عام استعمال کی اور سستی مصنوعات کے علاوہ سب سے نمایاں موقع آٹوموٹو انڈسٹری میں ہے۔ امریکی کار ساز کمپنیاں، جو کینیڈین مینوفیکچرنگ اور پرزوں پر انحصار کرتی تھیں، اب بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب مشکلات کا شکار ہوچکی ہیں۔ ایسے میں پاکستانی صنعتکار چھوٹے پلاسٹک فٹنگز، انٹیریئر پرزے اور دیگر آسانی سے تیار ہونے والے صنعتی اجزاء فراہم کر کے اس خلاء کو پُر کر سکتے ہیں۔ اگر اس موقعے کو بروقت استعمال کیا جائے تو پاکستان اپنی معیشت کو نئی بلندیوں پر لے جا سکتا ہے اور امریکی مارکیٹ میں مستقل جگہ بنا سکتا ہے۔
موقعے سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان کو نہایت مستعدی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (FPCCI) اور دیگر متعلقہ ادارے حکومت اور فوج کے اشتراک سے ایک خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دیں، جو فوری طور پر طلب میں اضافے والی مصنوعات کی نشاندہی کرتے ہوئے برآمدات سے تعلق رکھنے والے مینوفیکچررز اور ان کے افعال کو ہموار کرے۔
پاک فوج جو خاص طور پر بحرانوں اور ہنگامی حالات میں انتظامی امور میں معاونت کاری کا زبردست تجربہ رکھتی ہے، اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) جیسے اداروں کے ذریعے اس منصوبے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، حکومت کو چاہیے کہ وہ متعلقہ صنعتی شعبے کے لیے بجلی کے نرخوں میں کمی، بیوروکریسی کی پیچیدگیوں کو کم کرنے اور برآمد کنندگان کو آسان شرائط پر قرضے فراہم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔
عالمی جغرافیائی سیاست برق رفتاری سے پہلو بدل رہی ہے اور حالات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، اس کی کسی کو خبر نہیں، ٹرمپ انتظامیہ کی ممکنہ مستقبل کی پالیسیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ امریکی مارکیٹ میں اپنی جگہ مستحکم کرے، اس سے پہلے کہ کوئی اور ملک اس خلا کو پُر کر لے۔ امریکہ میں تقریباً 38,000 ڈالر شاپس سالانہ 80 ارب ڈالر کی آمدنی پیدا کرتی ہیں، اور مجموعی طور پر اس مارکیٹ میں 3 ٹریلین ڈالرز کی تجارت ہوتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر پاکستان اپنے متعلقہ صنعتی و برآمدی نظام کو مضبوط کرے، تو وہ اس وسیع تر منڈی سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
بلاشبہ امریکی ٹیرف کے نفاذ نے پاکستان کے لیے ایک بے مثال موقع فراہم کیا ہے تو ضروری ہے کہ پاکستان اپنی مینوفیکچرنگ صلاحیتوں کو مؤثر انداز میں بروئے کار لائے، فوری اقدامات کرے اور برآمدات کو فروغ دینے کے لیے عملی حکمت عملی اپنائے، وقت آگیا ہے کہ پاکستان امریکی تجارتی نیٹ ورک میں ایک کلیدی سپلائر کے طور پر اپنی جگہ بنا لے کیونکہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے، اور یہی وہ لمحہ ہے جس میں پاکستان کو اپنی معاشی ترقی کے لیے فیصلہ کن اقدامات اٹھا کر معاشی طاقت بننے کے اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا ہے۔